کلبھوشن کیس: وکیل فراہمی کی درخواست 9 دسمبر کو دوبارہ سماعت کیلئے مقرر
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان کی قید میں موجود بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو وکیل فراہمی کی درخواست 9 دسمبر کو دوبارہ سماعت کیلئے مقررکردی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں کلبھوشن یادیو سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کے کیس کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا گیا ہے۔
چیف جسسٹس اطہر من اللہ نے 3 صفحات پر مشتمل حکم نامہ تحریر کیا۔ ہائی کورٹ کے حکم نامے میں بتایا گیا ہے کہ عالمی عدالت کے فیصلے پر موثرعمل درآمد بھارتی معاونت سے ہی ممکن ہے اور کیس میں معاونت سے بھارت کی خود مختاری متاثر نہیں ہوگی۔
حکم نامے میں بتایا گیا ہے کہ بھارتی قیدی جسپال کے کیس میں بھارت اس ہی عدالت میں پیروی کرچکا ہے اور جسپال کے کیس میں اس ہی عدالت نے بھارتی سفارت خانے کو ریلیف دیا اور بھارت کی خود مختاری کا مکمل خیال رکھا گیا تھا۔
مزید یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بھارت کو اگر کوئی خدشات ہیں تو اس عدالت کو آگاہ کرسکتا ہے۔ عالمی عدالت کے فیصلے پر عمل اور فئیر ٹرائل یقینی بنانا حکومت پاکستان کا فرض ہے، مناسب ہوگا کہ کلبھوشن کیلئے وکیل فراہمی کا بھارت کو ایک موقع اور فراہم کیا جائے اور رجسٹرار آفس 9 دسمبر کو دوبارہ یہ کیس سماعت کے لئے مقرر کرے۔
گذشتہ سماعت میں عدالت کو بتایا گیا کہ 5 مئی کے عدالتی حکم پر بھارت کو پیغام بھجوایا گیا لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ یہ عدالت کلبھوشن کیلئے وکیل مقرر کرے اور وہ اپیل دائر کرے گا، حکومت پاکستان اپنی طرف سے یہ نہیں کرسکتی، عدالت ہی کر سکتی ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ کس قانون کے تحت ہم یہ سب کریں؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ بھارت جب اپیل میں خود آہی نہیں رہا تو ہم کیسے سنیں؟
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر ہم نے عمل کرانا ہے، جو مؤثر کارروائی سے ہی ہوسکتا ہے، ہم نے ویانا کنونشن کے مطابق ہی آگے بڑھنا ہے، کیس میں کلبھوشن کی زندگی کا سوال ہے، ہم نے بھارت کو ہر آپشن دیا، یہ شاید ہمارے لئے مناسب نہیں ہوگا کہ وکیل خود فراہم کریں، ہم اب بھی توقع کرتے ہیں بھارت کلبھوشن کیس میں آگے بڑھے گا۔
اپریل 2021 میں بھارتی سفارتخانے کے وکیل بیرسٹر شاہ نواز نون نے کلبھوشن کیس میں پیروی سے معذرت کرلی تھی جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ میں متفرق درخواست دائر کی گئی۔
انہوں نےعدالت میں متفرق درخواست میں بتایا تھا کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کیس میں میرے پاس کوئی وکالت نامہ موجود نہیں۔ کیس میں بھارت کی جانب سے کوئی بیان نہیں دے سکتا۔
اس سے قبل 6 اکتوبر 2020 کو سینیر وکلاء مخدوم علی خان اور عابد حسن منٹو نے عدالتی معاونت سے معذرت کرلی تھی۔ عدالت عالیہ نے سینیر وکیل عابد حسن منٹو اور مخدوم علی خان کو کلبھوشن کیس میں عدالتی معاون مقرر کیا تھا۔ دونوں نے عدالت میں جمع جواب میں یہ ذمہ داری نبھانے سے معذرت کرتے ہوئے جواب عدالت میں جمع کرادیا تھا جس میں عابد حسن منٹو نے خراب صحت اور مخدوم علی خان نے پیشہ وارانہ وجوہات کا جواز بنایا۔
عابد منٹو نے مؤقف اپنایا کہ اپنی عمر اور جسمانی کمزوری کے باعث عدالت میں پیش ہونے سے قاصر ہوں۔ کچھ سال قبل وکالت سے ریٹائر بھی ہوچکا ہوں۔ عدالت معذرت قبول کرے۔
مخدوم علی خان کہنا ہے کہ عدالت کی جانب سے معاون مقرر کیا جانا باعث فخر ہے لیکن پیشہ ورانہ وجوہات کی بنیاد پر معاونت نہیں کرسکتا۔ واضح رہے کہ وزارت قانون نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کے سلسلے میں وکیل مقرر کرنے کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔
بھارتی نیوی کے حاضر افسر کلبھوشن یادیو کو 3 مارچ 2016 میں اس وقت گرفتار کیا گیا، جب وہ غیر قانونی طریقے سے پاکستان میں داخل ہوا تھا۔
Comments are closed on this story.