Aaj News

جمعرات, دسمبر 19, 2024  
16 Jumada Al-Akhirah 1446  

اسلام قبول کرنے کی کوئی کم از کم عمر نہیں: لاہور ہائیکورٹ

لاہور ہائیکورٹ نے ایک مسیحی شخص گلزار مسیح کی جانب سے اپنی کم ...
اپ ڈیٹ 27 ستمبر 2021 07:17pm

لاہور ہائیکورٹ نے ایک مسیحی شخص گلزار مسیح کی جانب سے اپنی کم عمر بیٹی چشمان مسیح کی بازیابی اورحوالگی کی پٹیشن مسترد کردی.کم عمر لڑکی کو مبینہ طور پر زبردستی مسلمان کیا گیا اور ایک بوڑھے شخص سے شادی کرادی گئی.

وائس پی کے ڈاٹ نیٹ کے مطابق پٹیشن کو خارج کرتے ہوئے جسٹس طارق ندیم نے کہا اسلام قبول کرنے کی کوئی کم از کم عمر نہیں اور حضرت علی نے 10 برس کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا.

عدالت نےمزید کہا چشمان 17 سال کی ہیں اور قانونی طور پر اپنا مذہب تبدیل کرنے کے قابل ہیں.مزیدیہ کہ انہوں نے کریمنل پروسیجر کوڈ کے سیکشن 164 کے تحت فیصل آباد میں مجیسٹریٹ کےسامنے بیان ریکارڈ کرایا کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا مذہب بدل رہی ہیں.

تاہم گلزار مسیح کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ فیصل آباد کورٹ نے لڑکی کے والد کو سمن بھیجے بغیر لڑکی کا بیان ریکارڈ کیا.

چشمان کے والد نے بارہا دعویٰ کیا کہ ان کی بیٹی صرف 13 سال اور نو ماہ کی ہے. اپنے دعووں کو ثابت کرنے کےلئے انہوں نے قانونی کوائف بھی فراہم کیے جن میں ان کی بیٹی کا برتھ سرٹیفیکیٹ اور نادرا کا بی فارم شامل ہے.

لڑکی کی عمر کا تعین کرنے کےلئے عدالت نے اس ایف آئی آر پر انحصار کیا جس میں لڑکی کی عمر 17 سال بتائی گئی.

مسیح کے مطابق وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتا اور اس کی ایف آئی آر درخواست ایک پولیس اہلکار نے لکھی جس نے جان بوجھ کر لڑکی کی عمر غلط لکھی.

عدالت نے اس بات کو بھی نظر انداز کیا کہ گلزار مسیح نے پولیس ریکارڈ میں اس غلطی کی درستگی کےلئے کئی درخواستیں پیش کیں.

یاد رہے چشمان مسیح کو اس کے اسکول سے 27 جولائی 2021 کو نامعلوم افراد نے اغوا کیا تھا. جب گلزار نے پولیس میں ایف آئی آر درج کرائی تو انہوں نے پولیس کے سامنے چشمان کے اسلام قبول کرتے ہوئے کی ویڈیو اور ایک مسلمان شخص کے ساتھ نکاح نامے کی تصویر سامنے رکھی.

شادی کے سرٹیفیکیٹ پر چشمان کی عمر 19 برس لکھی ہے جبکہ چائلڈ میریج ایکٹ کے مطابق پنجاب میں لڑکیوں کی شادی کےلئے کم از کم عمر 16 جبکہ لڑکوں کی عمر 18 سال تعین ہے.

مسیح ایک رکشا ڈرائیور ہے اور ان کے پاس عدالت میں قانونی جنگ لڑنے کےلئے ذرائع نہیں ہیں.

تاہم انہوں نے کہا ہے کہ وہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ عدالتِ عظمیٰ میں چیلنج کریں گے اور اپنی بیٹی کو واپس گھر لانے کی کوشش کریں گے.

LHC