ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے بیرون ملک سے بھیجی گئی رقوم پر ٹیکس ختم
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) نے قانونی طریقے سے منی ٹرانسفر یا ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے بیرون ملک سے بھیجی گئی رقوم پر بھی ٹیکس ختم کر دیا ہے۔
اس حوالے سے سرکلر جاری کرتے ہوئے بیرون ملک سفارت خانوں کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔ جس میں بیرون ملک سے آنے والی رقوم اور ان پر ٹیکس کے حوالے سے تاریخی حوالے بھی دیے گئے ہیں۔
انکم ٹیکس آرڈیننس 2021 میں بھی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بینکوں کے ذریعے رقوم پاکستان بھیجنے پر بھی ٹیکس استثنیٰ دیا گیا تھا۔ تاہم اس کے لیے پیسے بھیجنے والے کو اپنی بیرون ملک کمائی کا ثبوت بھی فراہم کرنا ہوتا تھا۔
2015 تک ٹیکس معافی کے لیے بھیجی جانے والی رقم کی کوئی حد نہیں تھی تاہم 2018 میں 10 ملین روپے تک ٹیکس معاف تھا جسے 2019 میں پانچ ملین روپے کر دیا گیا تھا۔
تاہم اس رقم کی ترسیلات زر پر ٹیکس استثنیٰ حاصل کرنے کے لیے بھی چار شرائط مقرر کی گئی تھیں۔ جیسے بھیجی رقوم غیرملکی کرنسی میں ہوں، رقوم نارمل بینکنگ چینل کے ذریعے بھیجی جائیں اور وصول کی جائیں اور بینک رقم وصولی کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کرے گا۔
ٹیکنالوجی میں جدت کے ساتھ ہی بینکوں کی طرز پر رقوم منتقلی کے لیے کام کرنے والی ایکسچینج کمپنیوں اور دیگر ایسے اداروں کا نظام قانونی تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر تھا۔ منی گرام، ریا اور ویسٹرن یونین کے ذریعے بھیجی گئی رقوم پر سسٹم ٹیکس استثنیٰ نہیں دیتا تھا۔
اس حوالے سے ٹیکس قوانین اور سٹیٹ بنک کی ریگولیشنز میں فرق ہونے کی وجہ سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ ٹیکس استثنیٰ کے حوالے سے کئی ایک اپیلیں بھی ان لینڈ ٹریبونل میں زیرسماعت تھیں۔
ایف بی آر کے ان کی شرائط کے حوالے سے سٹیٹ بینک آف پاکستان نے میمورنڈم جاری کیا اور کہا کہ ’وہ تمام لوگ جو منی ٹرانسفر کمپنیوں کے ذریعے رقوم بھیجتے ہیں وہ ان شرائط کو پورا کرتے ہیں۔ اس لیے انھیں ٹیکس سے استثنیٰ دینا قانونی ہے۔‘
سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ بیرون ملک سے منی ٹرانسفر یا ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے آنے والی رقوم غیرملکی کرنسی میں ہی آتی ہیں۔ یہ غیر ملکی بینکوں کے پاکستانی اکاؤنٹس میں موصول ہوتی ہے۔ رقم بینکوں کے ذریعے ہی موصول ہوتی ہے اور پاکستانی روپے میں دی جاتی ہے۔ بینکوں کی طرح ایکسچینج اور منی ٹرانسفر کمپنیاں بھی رقم وصول کی رسید یا سرٹیفکیٹ دیتی ہیں۔
ایف بی آر کا کہنا ہے کہ ’سٹیٹ بینک ملک میں رقوم کے آنے اور جانے کا ذمہ دار ادارہ ہے اس لیے ان کا مؤقف تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس لیے ترسیلات زر پر ٹیکس سے متعلق کلیمز کے تمام کیسز نمٹائے جاتے ہیں اور مستقبل میں منی ٹرانسفر اور ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے بھیجی گئی رقوم پر بھی ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا۔ اس حوالے سے مستقبل میں کوئی اپیل بھی دائر نہیں کی جا سکے گی۔‘
خیال رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے بجٹ 2021 میں بھی بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے کئی ایک مراعات کا اعلان کیا گیا تھا۔
پاکستان کے قانون کے تحت بیرون ملک مقیم پاکستانی کسی رشتہ دار سے تحفے کی صورت میں جائیداد حاصل کرتے ہیں تو یہ وصولی قابل ٹیکس بن جاتی تھی۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی یہ سب سے بڑی شکایت تھی کہ بجٹ میں ایسی ٹرانسفر کو قانون میں نہ ہی نفع اور نہ ہی نقصان شمار کے طور پر منظور کرتے ہوئے اس کو ٹیکس سے استثنیٰ دے دیا گیا تھا۔
اسی طرح بجٹ میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے شروع کی گئی مراعات کو باضابطہ طور پر بجٹ کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کے ذریعے نیا پاکستان سرٹیفکیٹس میں سرمایہ کاری کرنے والے غیر مقیم پاکستانی پہلے مکمل اور حتمی ٹیکسیشن نظام کے ماتحت تھے۔ اب ان کے لیے مکمل اور حتمی ٹیکس نظام کے دائرے کو وسیع کر کے میوچل فنڈ سرمایہ کاریوں، حصص پر منافع، رئیل سٹیٹ سرمایہ کاریوں پر کیپٹل گین کو بھی ٹیکس سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے۔
اسی طرح اب روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کے ذریعے کی گئی سرمایہ کاری پر ہونے والی آمدنی پر ٹیکس گوشوارے داخل نہیں کرنا ہوں گے۔ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی شرط ختم ہونے سے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس رکھنے والے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ایکٹو ٹیکس پیئرز لسٹ میں نام نہ ہونے کے باعث لگنے والے جرمانے (ٹیکس ریٹ دگنا ہوجانا) سے تحفظ دے دیا گیا ہے۔
ودہولڈنگ ٹیکس ختم ہونے پر روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس رکھنے والے غیر مقیم پاکستانیوں کو نقد رقم نکلوانے اور نان فائلر پر لاگو بینک ٹرانسفرز پر ٹیکس بھی ختم کر دیا گیا ہے۔
Comments are closed on this story.