گوگل نے افغان حکومتی عہدیداروں اور وزارتوں کے ای میل اکاؤنٹس بلاک کردیے
گوگل نے افغانستان کی حکومت کے متعدد ای میل اکاؤنٹس کو عارضی طور پر بلاک کر دیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے معاملے سے آگاہی رکھنے والے ایک شخص کے حوالے سے بتایا ہے کہ اکاؤنٹس بلاک کرنے کا یہ فیصلہ افغان حکومت کے سابق اہلکاروں اور ان کے عالمی پارٹنرز کے ڈیجیٹل رابطوں کے ٹریل کے بارے میں پھیلتے خوف کو کم کرنے کے لیے کیا گیا۔
روئٹرز کے مطابق امریکی پشت پناہی سے قائم افغان حکومت کو طالبان کی جانب سے گرانے کے بعد مختلف رپورٹس میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ بائیو میٹرک اور افغان پے رول ڈیٹا بیس کو نئے حکمران اپنے مخالفین کی تلاش کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
ایک بیان میں گوگل کی مالک کمپنی الفابیٹ نے افغان حکومت کے اکاؤنٹس لاک ڈاؤن کرنے کی تصدیق نہیں کی تاہم بتایا کہ کمپنی افغانستان میں صورت حال کی نگرانی کر رہی تھی کہ اور ’متعلقہ اکاؤنٹس کو محفوظ بنانے کے لیے عارضی اقدامات کیے ہیں۔‘
سابق حکومت کے ایک ملازم نے روئٹرز کو بتایا کہ ’طالبان سابق حکومتی عہدیداروں کے ای میل اکاؤنٹس حاصل کرنا چاہ رہے تھے۔‘
سرکاری ملازم کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ ماہ کے اواخر میں طالبان نے ان سے کہا کہ جس وزارت کے لیے وہ کام کر رہے تھے اس کا ڈیٹا سرور میں محفوظ رکھا جائے۔‘
سابق افغان سرکاری ملازم کے مطابق ’اگر میں ایسا کرتا ہوں تو وہ وزارت کے سابق عہدیداروں کی سرکاری خط و کتابت کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرلیں گے۔‘
سرکاری ملازم نے بتایا کہ ’انہوں نے طالبان کے احکامات نہیں مانے اور اب وہ روپوش ہیں۔‘
روئٹرز لاحق سیکیورٹی خدشات کے باعث سابق سرکاری ملازم اور ان کی وزارت کا نام سامنے نہیں لایا۔
افغانستان میں وزارتیں اور سابق حکومت کے عہدیدار سرکاری رابطوں کے لیے گوگل سرور اور ای میل سروس استعمال کرتے تھے۔
گوگل کی سروس استعمال کرنے والی وزارتوں میں خزانہ، صنعت، ہائر ایجوکیشن اور معدنیات شامل ہیں۔ افغانستان کا صدارتی دفتر بھی گوگل استعمال کرتا تھا۔
انٹرنیٹ سیکیورٹی انٹیلی جنس فرم ڈومین ٹولز کے ریسرچر چاڈ اینڈرسن نے روئٹرز کو بتایا کہ ’صرف سرکاری ملازمین کی گوگل شیٹ ہی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ معلومات کا ایک خزانہ فراہم کر دے گی۔‘
ای میلز کے تبادلوں کے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی افغان حکومتی محکمے اور وزارتیں جن میں وزارت خارجہ اور صدارتی دفتر شامل ہیں مائیکروسافٹ کارپوریشن کی ای میل سروسز بھی استعمال کرتے تھے۔
تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ سافٹ ویئر فرم نے ان اکاؤنٹس کو طالبان کے ہاتھوں میں محفوظ رکھنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔ روئٹرز کی جانب سے رابطے پر مائیکرو سافٹ نے تبصرے سے انکار کیا۔
چاڈ اینڈرسن کے مطابق طالبان کے لیے پرانے ہیلی کاپٹروں کی بنسبت امریکہ کے تیار کردہ افغانستان کے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کا کنٹرول حاصل کرنا زیادہ اہم ہے۔
Comments are closed on this story.