عاصمہ رانی قتل کیس: والد کا مجرم مجاہد آفریدی کو معاف کرنے کا اعلان، عوام سیخ پا
نجی خبر رساں ادارے نے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ عدالت سے سزائے موت پانے والے عاصمہ رانی قتل کیس کے مرکزی ملزم کو اہل خانہ نے مبینہ طور پر معاف کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔
مجاہد آفریدی نے ایوب میڈیکل کالج ایبٹ آباد میں ایم بی بی ایس کے تیسرے سال کی طالبہ عاصمہ رانی کو 27 جنوری 2018 کو مبینہ طور پر شادی کی پیشکش ٹھکرانے پر کوہاٹ میں دن دہاڑے گولی مار دی تھی۔
قتل کا ارتکاب کرنے کے فوراً بعد ملزم ایک خلیجی ریاست بھاگ گیا تھا جہاں اسے انٹرنیشنل پولیس (انٹرپول) نے گرفتار کیا تھا اور اسے واپس عدالت لایا گیا تھا۔
ملزم کا خاندان سیاسی اور معاشی طور پر مضبوط بتایا جاتا ہے اور اس نے کیس میں پیشرفت کو روکنے کیلئے مبینہ طور پر مقتول طالبہ کے خاندان سے بار بار رابطہ کیا۔
مقتولہ عاصمہ رانی کے والد غلام دستگیر نے بعد میں مروت قبیلے کے بزرگوں اور نامور افراد سے رابطہ کیا اور انصاف کے حصول کے لیے ان کے خاندان کے ساتھ کھڑے ہونے میں ان کی مدد مانگی۔
مروت قومی جرگہ کے اراکین نے چیئرمین الحاج اسلم خان عیسیٰ خیل کی سربراہی میں اس وقت کے انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین محسود سے رجوع کیا تھا اور ان سے ملزم کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی اپیل کی تھی۔
اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس ثاقب نثار نے بھی کیس کو اخبارات کی شہ سرخیاں بننے کے بعد کے پی پولیس کو ملزم کو جلد از جلد گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
دی نیوز کے مطابق خاندانی ذرائع نے بتایا کہ عدالت سے سزائے موت سنائے جانے کے بعد ملزم کے رشتہ داروں نے اس کی جان بچانے کے لیے سخت کوششیں شروع کیں، جبکہ اس کے دو سہولت کار ، صدیق اللہ اور شاہ زیب کو اس الزام سے بری کر دیا گیا۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے، مرحوم عاصمہ رانی کے والد غلام دستگیر نے کہا، 'میں نے مجاہد آفریدی کو صرف اللہ کی خاطر معاف کیا ہے اور ان سے پیسوں کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ میں مروت قبیلے کے تمام بزرگوں اور معززین سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اگلے اتوار کو کوہاٹ میں معاہدے کی کارروائی کا مشاہدہ کریں۔'
اس پیغام کے بعد زیادہ تر بزرگ جیسے سابق ضلعی ناظم اشفاق احمد خان اور مروت اصلاحی تحریک کے سربراہ رشید احمد ، پاکستان مسلم لیگ (نواز) ملک عمران خان ، سابق جج اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شیر افضل خان وکیل نے کھلے عام یہ کہہ کر تصفیہ کی مخالفت کی کہ مجاہد آفریدی کو پھانسی پر لٹکایا جائے تاکہ کوئی عورتوں کو نقصان پہنچانے اور قتل کرنے کی جرات نہ کر سکے۔
دوسری جانب وائس آف امریکہ کے مطابق عاصمہ رانی کے آبائی ضلع لکی مروت سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر وکیل شیر افضل مروت نے صحافیوں کو بتایا کہ غلام دستگیر نے فیصلہ کرتے وقت مروت قومی جرگہ کے اراکین کو اعتماد میں نہیں لیا۔ لہذٰا وہ اس صلح کے خلاف عدالت سے رُجوع کریں گے۔
لکی مروت سے تعلق رکھنے والے حافظ منہاج الدین نے بتایا کہ معاہدے کے مندرجات ابھی تک سامنے نہیں آئے مگر اطلاعات کے مطابق لڑکی کے خاندان نے بھاری رقم کے عوض صلح کی ہے جس پر مقامی جرگہ اراکین ناراض ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب اس فیصلے کے خلاف لکی مروت قومی جرگہ میں شامل بعض اراکین بشمول وکلا اور مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
جرگہ اراکین نے الزام لگایا کہ مقتولہ عاصمہ رانی کے قاتلوں کے دباؤ میں آ کر اور پیسے لے کر مروت قوم کی عزت کو داؤ پر لگایا گیا ہے۔
مروت قومی جرگہ نے اعلان کیا ہے کہ کوئی بھی لکی مروت کا باشندہ کوہاٹ گیا تو اس کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے گا۔ حافظ منہاج الدین نے کہا کہ بائیکاٹ کی دھمکی پر بھی اختلاف رائے پایا جاتا ہے مگر زیادہ تر لوگ اس صلح بالخصوص مجرم کو معاف کرنے کے فیصلے پر ناخوش ہیں۔
خیال رہے کہ مجاہد آفریدی کو پشاور کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت کے جج اشفاق تاج نے رواں برس جون میں پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ سزائے موت کے علاوہ عدالت نے مجرم کو 30 لاکھ جرمانے اور مقتولہ کے خاندان کو 20 لاکھ روپے ادا کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔
سوشل میڈیا پر عاصمہ رانی کے قتل کے مجرم کی مبینہ معافی کیخلاف غم و غصہ پایا جارہا ہے۔
سید نامی ٹوئٹر صارف کا کہنا ہے کہ ، 'یہ ایک بہت ہی شرمناک اور بے عزتی والا کام تھا جو اس والد نے کیا۔ اللہ اس معصوم بچی کی روح کو سلامت رکھے۔'
مدثر خان خٹک کہتے ہیں،
حسنین کشور نے معاشرے کا تلخ چہرا اجاگر کرتے ہوئے لکھا،
آر یوسف زئی نامی ٹئٹر صارف نے مطالبا کیا کہ، 'اس معاملے پر تمام عوامی اخراجات والد سے وصول کیے جائیں۔ سرکاری ملازمین کی توانائیاں ضائع کرنے اور انہیں مایوس کرنے کے لیے اس پر کچھ جرمانہ بھی عائد کیا جانا چاہیے۔'
محمد لکھتے ہیں،
Comments are closed on this story.