سابق امریکی فوجی کی افغان اہلیہ کے کابل سے فرار کی دلچسپ داستان
افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے غیرملکیوں اور افغان شہریوں کے فرار کے حوالے سے ہر روز نئی کہانیاں منظرعام پر آرہی ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغانستان سے فرار حاصل کرنے والوں میں ایک سابق امریکی فوجی کی افغان اہلیہ شریفہ افضلی بھی شامل ہیں جنہوں نے ہانس رائٹ سے محبت کی شادی کی۔
شریفہ اور ان کے خاوند نے بیرون ملک فرار کی دلچسپ کہانی سنائی ہے۔ جس کے مطابق وہ کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے ایک دروازے پر ایک امریکی فوجی تک پہنچیں، ان کے کان سے اپنا موبائل فون لگایا۔ دوسری جانب ان کے شوہر، امریکی ریاست اوکلاہوما سے تعلق رکھنے والے سابق امریکی فوجی ہانس رائٹ مخاطب تھے۔
ہانس رائٹ نے اس امریکی فوجی سے کہا، 'دیکھیں میری بیوی کے پاس ویزا نہیں ہے اور اس کو طیارے پر سوار کرانے کے لیے ذرا قوانین کو بالائے طاق رکھ دیں۔'
اس فوجی نے رائٹ کی بات مان لی اور ان کے بقول، 'خدا کے فضل سے اس نے میری بیوی اور میرے ترجمان کو گیٹ سے گزر کر ہوائی اڈے میں داخل ہونے دیا۔'
یوں شریفہ افضلی خود کو ان خوش قسمت لوگوں میں شمار کرتی ہیں جو افغانستان سے باہر جانے میں کامیاب ہوگئے ہیں، لیکن قسمت نے بھی شریفہ افضلی کا ساتھ دیا ہے اور انہوں نے خود عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس میں بہت حد تک ان کے شادی کے سرٹیفیکیٹ اور خصوصی امیگریشن ویزے (ایس آئی وی) کے لیے ماضی میں دی گئی درخواست بھی کام آئی ہیں۔
روئٹرز کے مطابق اس فرار میں امریکی فوج کی ایک سابق خصوصی آپریشنز آفیسر ایشلے سوگی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ ایک نیٹ ورک کے ساتھ کابل کے ہوائی اڈے پر افغانوں کو بیرون ملک روانہ کرنے کے مشن پر کام کررہی تھیں۔ انہوں نے وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی کو ایک ای میل بھیجی تھی اور اس میں شریفہ افضلی کانام ہوائی اڈے سے بیرون ملک سفر کرنے والے افغانوں کی فہرست میں شامل کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
اس ضمن میں جین ساکی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ 'ہزاروں جانیں بچانے کے ذمے دار تو کابل میں برسرزمین موجود امریکی فوج کے خواتین ومرد اہلکار اور قومی سلامتی کے اداروں اور محکمہ خارجہ کی ٹیمیں ہیں۔'
٭ شادی کا سرٹیفیکیٹ اور موبائل فون
شریفہ کے خاوند رائٹ گروو، اوکلاہوما سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ امریکی فوج کی 24 سالہ ملازمت کے بعد 2009 میں فرسٹ سارجنٹ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے افغان خصوصی فورسز کی مشاورت کے لیے کونٹریکٹر کے طور پر کام کا آغاز کیا تھا۔
اس دوران میں 2017ء میں ان کی ملاقات افضلی سے ہوئی جو اس امریکی کنٹریکٹنگ کمپنی میں کام کر رہی تھیں۔ پھر رائٹ نے 2019ء میں اپنی ملازمت تبدیل کرلی اور شریفہ بھی ایک مختلف مقام پر امریکی کمپنی کے ساتھ ترجمان کے طور پر کام کرنے لگ گئیں۔
اس دوران میں ان دونوں کے درمیان ٹیکسٹ پیغامات، ای میل اور فیس بُک کے ذریعے راہ و رسم بڑھی اور پھر یہ برقی رابطے شادی پر منتج ہوئے تھے۔
وہ دونوں اپریل میں شادی کے لیے دبئی گئے تھے لیکن وہاں ان کا نکاح نہیں ہوسکا اور ریاست یوٹاہ کے ایک جج نے آن لائن تقریب میں انہیں رشتہ ازواج کے بندھن میں باندھا تھا۔
رائٹ نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات میں حکام نے انھیں شادی کے کاغذات دینے سے انکار کردیا تھا کیونکہ 'میں عیسائی ہوں اور میری افغان بیوی مسلمان ہے۔'
انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد ریاست یوٹاہ کے لیفٹیننٹ گورنر نے ان کی شادی کے سرٹیفیکیٹ پر دستخط کیے تھے اور یہ ان کے لیے نہایت خوش کن تھا۔ مگر اس شادی سرٹیفیکیٹ سے بھی نوکر شاہی کی ایک رکاوٹ دور نہیں ہوسکی اور ان کی اہلیہ افضلی امریکی ویزے کے لیے درخواست نہیں دے سکتیں کیونکہ اس نے پہلے ہی 2018 سے ایس آئی وی کی درخواست دے رکھی تھی۔
رائٹ مئی میں افغانستان سے واپس امریکا چلے گئے تھے اور انہیں امید تھی کہ افضلی کے ویزے کی منظوری دے دی جائے گی لیکن اس کے بعد طالبان کا تیزی سے ملک پر قبضہ ہوگیا اور ہزاروں افراد کابل سے باہر جانے کے لیے ہوائی اڈے پرٹوٹ پڑے تھے۔
رائٹ کے بقول انہوں نے جنگ زدہ ملک سے اپنی اہلیہ کو نکالنے کے لیے گذشتہ دو ہفتوں کے دوران میں بہت کوششیں کی ہیں اور وہ رات کو ٹھیک طرح سے سو بھی نہیں سکے۔ ان کی راتیں افغانستان میں (امریکی) فوج اور افغان فوجیوں سے روابط اور بات چیت میں گزری ہیں اور وہ اپنی بیوی سے بھی مسلسل رابطے میں رہے ہیں تاکہ انہیں کابل سے انخلا کی حکمت عملی سمجھائی جاسکے۔
شریفہ کو کابل سے رات آٹھ بجے ہوائی اڈے جانے کے لیے نکلیں تھیں۔ انہیں اور ان کے ترجمان کو امریکی فوج کے کنٹرول والے گیٹ تک پہنچنے میں شدید گرمی اور حبس میں قریباً 16گھنٹے لگے تھے اور اس دوران میں انہیں طالبان کی چھڑیاں بھی کھانا پڑی تھیں اورکچھ چوٹیں آئیں۔ ہجوم میں دھکے پہ دھکا لگتا رہا لیکن اس خاتون نے ہمت نہیں ہاری۔
وہاں سے کابل ائیرپورٹ کے اندر داخل ہونے میں ناکامی کے بعد وہ ایک دوسرے دروازے پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئی تھیں لیکن امریکی فوجیوں نے دوبارہ انہیں اندرداخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کردیا کیونکہ افضلی کا ویزا ابھی منظور نہیں ہوا تھا۔
اس دوران میں ایشلے سوگی مسلسل ٹیکسٹ پیغامات کے ذریعے ان کی رہنمائی کرتی رہی تھیں اورانہیں یہ بتاتی رہی تھیں کہ انہیں امریکی فوجیوں سے کیسے شائستہ انداز میں گفتگو کرنی ہے اورانہیں یہ بتانا ہے کہ وہ ایک سروس ممبر اور امریکی شہری کی قانونی شریک حیات ہیں، ان کے پاس شادی کا سرٹیفیکیٹ موجود ہے اور شاید اس کو دکھانے کی ضرورت بھی پیش آئے۔ نیز ان کے خصوصی امیگریشن ویزے کا کیس امریکی حکام کے زیر غور ہے۔
شریفہ افضلی اور ترجمان جب ائیرپورٹ کے دوسرے گیٹ پر پہنچے تو رائٹ نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ وہ اپنا فون امریکی فوجی کے سپرد کردے اور انہوں نے اس موقع پر ہی امریکی فوجی سے مدد کی درخواست کی اور کہا کہ ان دونوں کو اندر داخل ہونے دے۔
ایک بار جب وہ دونوں بہ حفاظت ہوائی اڈے کے اندر داخل ہوگئے تو پھر سوگی نے افضلی اور ترجمان کو بیرون ملک جانے والی ایک پرواز میں سوار کرانے کا انتظام کیا۔ اس وقت تک رائٹ کے بقول ان کی اہلیہ کی منزل نامعلوم تھی گزشتہ جمعہ کو انہوں نے بتایا کہ 'آج صبح شریفہ نے مجھے فون کیا اور بتایا کہ وہ جرمنی میں ہے۔'
Comments are closed on this story.