داعش خراسان میں بھارتی افراد کی بھرتی کا انکشاف
افغانستان کے صوبے خراسان میں انتہا پسند دہشتگرد تنظیم داعش خراسان (آئی ایس کے پی) کی جانبس ے گذشتہ کئی سالوں سے بھارتی افراد کو شام، افغانستان میں لڑائی اور مغرب کو نشانہ بنانے کیلئے بھرتی کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی اردو ) میں اس حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی گئی ہے جس کے مطابق آئی ایس کے پی نے بھارتی خفیہ ایجنسی را کی مدد سے کئی دہشت گرد حملے کئے جس کے باعث افغانستان اور پاکستان میں خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں بے گناہ لوگ جاں بحق ہوئے۔
اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق مغربی انسداد دہشت گردی کے ماہرین مانتے ہیں کہ گروپ کے ارکان کی تعداد 5 ہزار سے زائد ہے جن میں سے زیادہ تر نے اپریل 2019ء میں براستہ ایران، افغانستان میں آئی ایس کے پی میں شمولیت اختیار کی۔ بھارت میں آئی ایس کے پی زیادہ تر کرناٹکہ اور کیرالہ میں موجود ہے جس کی قیادت محمد امین کر رہا ہے جس کا تعلق کیرالہ میں مالہ پورم سے ہے۔
آئی ایس کے پی گزشتہ کئی سالوں سے بھارتی افراد کو بھرتی کرنے کی کوششیں کر رہی ہے اور افغانستان،شام ، عراق اور افریقہ سے تعلق رکھنے والے اپنے ارکان کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں ہے ،تنظیم نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم اور ہوپ اور ٹیلیگرام جیسی اپنی ایپلی کیشنز کے ذ ریعے پیغام رسانی اور پوسٹ کی۔
اے پی پی نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ مغربی انسداد دہشتگردی کے ماہرین کے مطابق کئی بھارتی افراد نے اس وقت آئی ایس کے پی میں شمولیت اختیار کی جب 2015میں افغانستان صوبہ ننگر ہار میں اس کا باقاعدہ قیام ہوا جو نئے ارکان بھرتی اور فنڈز بھی جمع کرتی ہے، جب امریکہ نے اپریل 2017میں افغانستان کے ننگر ہار صوبہ کے ضلع آچن میں مدد آف آل بمبرز (ایم او اے بی) کے ذریعے حملہ کیا تو آئی ایس کے پی میں شامل 13بھارتی دہشت گرد اور 2بھارتی کمانڈرز ہلاک ہوئے ۔
ایک کارگو طیارہ کے ذریعے بھاری مقدار میں گولہ بارود گرایاگیا جس کا مقصد غار اور سرنگ میں گروپ کے افراسٹرکچر کو تباہ کرنا تھا ۔ افغان پجحوک نیوز ایجنسی کے مطابق جی بی یو ۔ 43/bحملہ میں 96دہشت گرد ہلاک ہوئے جن میں سے 13بھارتی تھے ۔
نومبر 2020ء میں پاکستان نے ملک میں دہشت گردی میں بھارتی خفیہ اداروں کے ملوث ہونے کے بارے میں دنیا کو ثبوت پیش کئے۔
آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ حال ہی میں بھارت کے دو انٹیلی جنس افسران نے بھارت سے 30 دہشت گردوں کو پاکستان افغانستان کی سرحد پر بھیجا جہاں انہیں داعش کے کمانڈر شیخ عبدالرحیم المعروف عبدالرحمان مسلم دوست کے حوالہ کیاگیا۔ جنوری 2021ء میں فوجی ترجمان نے ایک اور پریس بریفنگ کے دوران بتایا تھاکہ افغانستان میں آئی ایس کے پی بھارت کی مدد اور افغان حکومت کی نااہلی سے پروان چڑھ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں داعش کے نقوش ہیں جسے راء کی حمایت حاصل ہے،اس حوالہ سے بڑا ثبوت دستیاب ہے مگر ہم افغان حکومت کے ساتھ رابطہ میں ہیں، ہم انہیں اپنے ایشوز اور تشویش سے آگاہ کر رہے ہیں، ہم ان کے ساتھ مسلسل رابطہ میں ہیں۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو 80 ہزار سے زائد جانی نقصان ہوا اور 150 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔
آئی ایس کے پی کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مانیٹرنگ ٹیم کی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ داعش نے اپنی تنظیم میں مزید افراد بھرتی کرنے اور نئے سپورٹرز کی تربیت کو ترجیح دی۔ اس کے رہنماؤں کو امید ہے کہ ضدی طالبان اور دیگر شدت پسندوں کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے راغب کیا جائے گا جو امریکہ اور طالبان کے درمیان افغانستان میں قیام امن کیلئے معاہدہ کو مسترد کرتے ہیں۔
دوسری جانب سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے اپنی کتاب جنوبی ایشیاء میں داعش ازم کے قیام اور توسیع میں بھارت کے کردار میں بتایا کہ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے 2014ء میں عراق کا دورہ کیا اور داعش کے سربراہ سے ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کیلئے ملاقات کی اور اس انتہا پسند گروپ کے دیگر رہنمائوں سے بھی ملاقات کی۔ راء کے تعاون سے آر ایس ایس اور داعش کا گٹھ جوڑ سامنے آ رہا ہے جو ریکارڈ پر ہے جس کا انکشاف دہلی میں مشرق وسطی کے ایک سفیر نے بھی کیا ہے۔
انہوں نے کردستان میں داعش کی جانب سے بہت سے بھارتیوں کو تربیت دینے کی تصدیق کی۔ رپورٹ کے مطابق آر ایس ایس اور داعش را کی ایما پر کشمیریوں مسلمانوں کے صفایا کیلئے ایک بڑے بھارتی منصوبے پر عمل درآمد کرنا چاہتے ہیں جو مقبوضہ کشمیر سے مسلمانوں کے خاتمہ کیلئے دہشت گردی کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آئی ایس کے پی دیگر صوبوں نورستان، بدکس، سری پل، بغلان، بدخشاں، قندوز اور کابل منتقل ہو گئی ہے اور اس کے دہشت گردوں نے سلیپر سیلز قائم کئے ہیں۔ گروپ نے کابل اور اس کے اطراف اپنے ٹھکانوں کو مضبوط بنایا ہے جہاں یہ اپنے زیادہ تر حملے کرتا ہے اور اقلیتوں، کارکنوں اور سرکاری ملازمین کو نشانہ بناتا ہے تاہم شدید اختلافات کے باعث افغان طالبان افغانستان سے آئی ایس کے پی کے ساتھ لڑنے کیلئے سامنے تھے جس نے ان سے ملک کا وسیع علاقہ کلیئر کرایا۔ 2020ء کے اوائل میں امارات اسلامی افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعوی کیا کہ زیادہ تر علاقہ سے گروپ کو باہر نکالا گیا۔
اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق صوبہ خراسان میں اسلامی ریاست میں آئی ایس کے پی جو داعش کے نام سے جانی جاتی ہے نے 25 مارچ 2020 کو کابل میں ایک گوردوارہ پر حملہ کیا جو ایک بھارتی محمد مہاسن نے کیا تھا، جس کا تعلق کیرالہ سے ہے جسے افغان سیکیورٹی فورسز نے حملے کے دوران ہلاک کیا ۔کابل پر طالبان کے قبضہ کے وقت اشرف غنی کی ختم ہوتی ہوئی حکومت نے بگرام جیل سے قیدی رہا کئے جن میں 14کا تعلق بھارتی ریاست کیرالہ سے تھا ،جنہیں آئی ایس کے پی کے ساتھ کام کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا ، یہ افراد کابل ایئرپورٹ پر ایک خطرناک حملہ کی سازش میں ملوث تھے ۔
طالبان کے مطابق رہائی پانے والے کیرالہ کے 14افراد میں سے ایک نے اپنے گھر رابطہ کیا اور کہا جاتا ہے کہ حملہ میں ملوث یہ بڑے گروپ کا حصہ تھا۔ مالاپورم ،کاسا راگود اور کنہڑ کے اضلاع میں رہنے والے کیرالہ کے افراد مشرق وسطی میں داعش میں شمولیت کے لئے بھارت سے منتقل ہوئے ، ان دہشتگردوں میں سے بعض کے خاندان آئی ایس کے پی کے تحت رہائش پذیر ہونے کے لئے افغان صوبہ ننگر ہار بھی آئے ۔
اگست 2020میں کیرالہ کے ایک اور جہادی ابوروہا المہاجر نے صوبہ ننگر ہار میں جلال آباد جیل پر ایک خودکش گاڑی کے ذریعے حملہ کیا جس کے بعد آئی ایس کے پی کے دہشتگردوں نے حملہ کیا ۔آئی ایس کے پی کے ترجمان سلطان عزیز اعظم کے مطابق حملے میں 3بھارتیوں نے حصہ لیا ،آئی ایس کے پی نے 3بھارتی شہریوں کی تصویر جاری کیں جنہوں نے اگست 2020میں ننگر ہار جیل پر حملہ کیا ، امریکی خارجہ پالیسی کے میگزین کے مطابق ایشائی اور وسطی ایشیائی اور بھارتی افراد کی موجودگی ایک نیا مظہر ہے جو داعش سے منسلک جہاد ی عزم کے پہلو میں تبدیلی ہے ۔
میگزین نے2019میں سری لنکاکے ایسٹر حملہ اور کابل میں ایک گوردوارے پر حملہ میں بھارت کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی۔
٭ آئی ایس کے پی کیا ہے۔۔۔؟
کابل پر طالبان کے قبضے اور غیر ملکیوں کے فوری انخلاء کے دوران اس گروہ نے دنیا کو اپنا خطرناک وجود یاد دلایا۔ افغانستان میں کابل ایئر پورٹ کے باہر دو دھماکوں کے فوراً بعد آئی ایس کے پی نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی جن میں 170 سے زائد شہری، 13 امریکی فوجی جاں بحق اور درجنوں زخمی ہو گئے۔
اعماق نیوز ایجنسی کی جانب سے خود کش بمبار عبدالرحمان الوگری کی تصویر جاری کی گئی اور آئی ایس کے پی کے بیان میں بتایا کہ آئی ایس کے پی نے کابل ایئر پورٹ پر حملہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے خود کش بمباروں نے جمعرات کی شام حملوں میں امریکی فوج کے ساتھ کام کرنے والے متراجم اور اس کے ساتھیوں کو نشانہ بنایا جن میں 28 طالبان بھی جاں بحق ہوئے۔
آئی ایس کے پی داعش سے وجود میں آئی جو عراق اور شام میں ایک عالمی اسلامی خلافت قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایس کے پی 2014ء میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ٹوٹنے، افغان طالبان اور شام میں القاعدہ کے منحرف ارکان کے باعث قائم ہوئی جس نے داعش کے رہنما ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا۔
اس گروپ کا شمال مشرقی افغانستان میں مضبوط گڑھ ہے جبکہ کابل اور دیگر صوبوں میں اس کے سلیپر سیلز ہیں۔ آئی ایس کے پی کے دہشت گرد عراق اور شام میں حملے کرتے رہے ہیں اور مغربی اہداف کو نشانہ بناتے رہے۔ حالیہ برسوں میں یہ گروپ افغانستان اور پاکستان میں سنگین دہشت گرد حملوں کا ذمہ دار ہے جس سے ہسپتالوں ، مساجد اور عوامی مقامات پر لوگ جاں بحق ہوئے۔
Comments are closed on this story.