طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کہاں ہے؟ بڑا انکشاف
افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان کی ایک وسیع رینج کابل میں داخل ہوئی ہے, جن میں سخت کمانڈوز، مسلح مدرسے کے طلباء اور برسوں کی جلاوطنی سے واپس آنے والے سرمئی رہنما شامل ہیں۔ لیکن ان میں طالبان کے سپریم لیڈر کا کہیں کوئی اتا پتا نہیں۔
طالبان کے سپریم لیڈر سمجھے جانے والے ہیبت اللہ اخوندزادہ 2016 سے طالبان کو سربراہ کے طور پر لیڈ کررہے ہیں،
اخوندزادہ کے روز مرہ کے کردار کے بارے میں بہت کم لوگوں کو معلوم ہے، ان کا عوامی پروفائل بڑی حد تک اسلامی تعطیلات کے دوران سالانہ پیغامات کے اجراء تک محدود ہے۔
طالبان کی طرف سے جاری کی گئی ایک تصویر کے علاوہ، رہنما نے خود کو کبھی عوامی طور پر پیش نہیں کیا اور ان کا ٹھکانہ زیادہ تر نامعلوم ہے۔
اگست کے وسط میں کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے طالبان نے اخوندزادہ کی نقل و حرکت کے بارے میں سخت چپ سادھی ہوئی ہے۔
اخوانزادہ کے ٹھکانے کے بارے میں پوچھے جانے پر طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے رواں ہفتے نامہ نگاروں کو بتایا ، 'آپ ان شاء اللہ جلد ملیں گے۔'
طالبان کے مختلف دھڑوں کے سربراہوں نے کابل کی مساجد میں کھلے عام تبلیغ کی، اپوزیشن شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور یہاں تک کہ حالیہ دنوں میں افغان کرکٹ حکام سے بھی بات چیت کی۔ لیکن اخوندزادہ کے بارے میں پراسرار خاموشی دیکھنے کو ملی ہے۔
تو اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر ہیبت اللہ اخوندزادہ ہیں کہاں۔۔۔؟
اسرائیلی خبر رساں ادارے نے اے ایف پی کے حوالے سے بتایا کہ طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ افغانستان میں ہی موجود ہیں۔
نائب ترجمان طالبان بلال کریمی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’میں تصدیق کر سکتا ہوں کہ وہ قندھار میں ہیں اور جلد ہی وہ عوام کے سامنے آئیں گے۔‘
یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان کے کسی ترجمان نے ملا ہیبت اللہ کی افغانستان میں موجودگی کی تصدیق کی ہے۔
٭ طالبان قیادت کی خفیہ تاریخ
طالبان اپنے ٹاپ لیڈرز کو خفیہ رکھنے کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔
اس گروہ کے پراسرار بانی ملا محمد عمر اپنے چھپنے کے طریقوں کے لیے مشہور تھے اور 1990 کی دہائی میں جب یہ گروپ اقتدار میں تھا تو شاذ و نادر ہی انہوں کابل کا سفر کیا۔
اس کے بجائے عمر زیادہ تر قندھار میں اپنے کمپاؤنڈ میں نظروں سے اوجھل رہے، یہاں تک کہ آنے والے وفود سے ملنے سے بھی ہچکچاتے تھے۔
پھر بھی ان کا ایک ایک لفظ قانون تھا اور اس احترام کے ساتھ تحریک کو کمان کرنے کے لیے کوئی واحد شخصیت سامنے نہیں آئی۔
بین الاقوامی بحران گروپ کے ایشیا پروگرام کے سربراہ لاریل ملر کہتے ہیں کہ اخوندزادہ نے 'بظاہر عمر کی طرح ایک مخصوص انداز اپنایا ہے۔'
ملر نے ملا عمر کے پیشرو ملا اختر منصور کی امریکی ڈرون حملے سے ہلاکت کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر بھی رازداری کو قئام کیا جاسکتا ہے۔
ملر نے اے ایف پی کو بتایا ، 'طالبان کے ایک ترجمان نے اشارہ دیا ہے کہ ان کے رہنما جلد سامنے آئیں گے ، اور ان کے انتقال کے شکوک و شبہات کو دور کرنے کے لیے ان کے پاس ایسا کرنے کی وجوہات ہوسکتی ہیں۔'
'لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے آپ کو ظاہر کرنے کے بعد وہ دوبارہ روپوش ہوجائیں اور دور دراز سے اپنا اختیار استعمال کریں جیسا کہ ملا عمر نے کیا تھا۔'
اخوندزادہ کی عدم موجودگی نے ان کی صحت کے بارے میں برسوں سے کئی افواہوں کو جنم دیا ہے کہ وہ کوویڈ 19 میں مبتلا تھے یا کسی بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔
واضح رہے کہ طالبان کے ہزاروں دھڑے ہیں جو پورے افغانستان کے گروہوں پر مشتمل ہیں، اور حلقوں کی ایک وسیع صف کی نمائندگی کرتے ہیں۔
2015 میں اس انکشاف نے کہ طالبان قیادت نے برسوں سے ملا عمر کی موت کو چھپا رکھا تھا، ایک مختصر مگر خونی طاقت کی جدوجہد کو جنم دی ، جس سے کم از کم ایک بڑا دھڑا گروپ سے الگ ہو گیا۔
جیسا کہ طالبان لڑائی سے حکمرانی میں منتقل ہو رہے ہیں، ان کے متعدد دھڑوں کے مفادات کا توازن طاقت کو مضبوط کرنے کے لیے اہم ہوگا۔
کسی بھی طاقت کا خلا ایک ایسی تحریک کو غیر مستحکم کرنے کا خطرہ بن سکتا ہے جو کئی دہائیوں کے تنازع کے بعد ہم آہنگ رہنے میں کامیاب رہی ہو ، جس کیلئے دسیوں ہزار سپاہی مارے گئے ہوں ، اور اعلیٰ رہنماؤں کو قتل یا گوانتانامو بے میں امریکی جیل بھیجا گیا ہو۔
دوسرے لوگ تجویز کرتے ہیں کہ جب تک امریکی قیادت والی افواج آنے والے دنوں میں افغانستان سے اپنا حتمی انخلا نہیں کر لیتی تب تک یہ گروہ اپنے وقت کا انتظار کر رہا ہے۔
پاکستان میں مقیم سیکیورٹی تجزیہ کار امتیاز گل نے کہا کہ، 'طالبان اپنے آپ کو جہاد کی حالت میں سمجھتے ہیں' جب تک کہ غیر ملکی فوجی افغان سرزمین پر موجود ہیں اور اپنے رہنما کو ان کے جانے تک چھپائے رکھیں گے۔
'یہی وجہ ہے کہ سپریم لیڈر منظر عام پر نہیں آرہے ہیں۔'
Comments are closed on this story.