Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

انٹرپول نے حسین حقانی کے خلاف ریڈ وارنٹ کی دو درخواستیں خارج کر دیں

فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے مبینہ ذرائع کی جانب سے...
اپ ڈیٹ 28 اگست 2021 10:52am

فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے مبینہ ذرائع کی جانب سے پاکستانی میڈیا پر تین سال پرانی خبر کو حسین حقانی کے حوالے سے نئی پیشرفت کے طور پر چلایا گیا، سرکاری ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ ایف آئی اے نے اختیار کے غلط استعمال اور فنڈز کے غبن سے متعلق ایک کیس میں امریکا میں مقیم سابق پاکستانی سفیر کو واپس بھیجنے کے لیے انٹرپول سے رابطہ کیا تھا۔لیکن انٹرپول نے تین سال قبل اسی درخواست کو مسترد کرچکی ہے۔

دی نیوز کے مطابق 2018 میں انٹرپول نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی خصوصی درخواست پر حقانی کے خلاف ریڈ وارنٹ کی درخواست مسترد کی۔

اس ہفتے پاکستانی نیوز چینلز نے بریکنگ نیوز نشر کی کہ ایف آئی اے نے اختیار کے غلط استعمال اور فنڈز کے غبن سے متعلق ایک کیس میں حسین حقانی کی وطن واپسی کے لیے انٹرپول سے رابطہ کیا ہے۔

انٹرپول کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ امریکا میں متعین رہنے والے پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے خلاف 2018 میں اختیارات کے ناجائز استعمال، 2 ملین ڈالر کے خرد برد اور دھوکہ دہی کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

خط میں کہا گیا کہ ملزم حسین حقانی عدالتی مفرور ہیں اور ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے اس لیے انٹرپول حسین حقانی کے ریڈ وارنٹ جاری کرے۔

دوسری جانب خبر سامنے آںے کے بعد حسین حقانی کا ردعمل بھی سامنے آتھا۔ حسین حقانی نے اپنے جاری پیغام میں لکھا، 'بعض خبریں دو تین سال کے وقفے سے چلائی جاتی رہتی ہیں۔ دیسی صحافت کا حال اتنا بُرا ہے کہ کوئی یہ بھی نہیں دیکھتا کہ یہی خبر 2018 میں چلائی جا چُکی۔ اگر اُس وقت چیف جسٹس ثاقب نثار کے خط پر انٹرپول نے ایکشن نہیں لیا تو کیا اس دفعہ مُلا برادر سے خط لکھوانے کا ارادہ ہے؟'

حسین حقانی پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں ںے اس وقت واشنگٹن کی مدد حاصل کرنے کے لیے بھی ایک میمو بھیجا تھا۔

٭ پس منظر

ایف آئی اے نے اینٹی کرپشن باڈی کی تحقیقات کے تحت مارچ 2018 میں حسین حقانی کے خلاف مجرمانہ اعتماد کی خلاف ورزی، اختیارات کے غلط استعمال اور فنڈز کے غبن کے لیے پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 3 ، 4 ، 409 ، 420 اور 109 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

اپریل 2018 میں درخواست مسترد ہونے کے بعد ، مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے کہا کہ وہ وزارت خارجہ سے انٹرپول کے دوسرے انکار کے بعد حقانی کی حوالگی کے لیے امریکی حکومت سے رجوع کرنے پر غور کر رہی ہے۔

تاہم، مزید کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا کیونکہ پالیسی کے طور پر امریکی حکومت سیاسی معاملات میں حوالگی پر غور نہیں کرتی اور حقانی کے معاملے میں یہ تقریباً ناممکن ہے کہ امریکا کوئی کارروائی کرے۔

جنوری 2018 میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے میمو گیٹ کیس کو دوبارہ کھولا تھا جس کی بنیاد پر سابق وزیر اعظم نواز شریف اور کئی دیگر نے نومبر 2011 میں دائر درخواست کی بنیاد پر حقانی کو سپریم کورٹ میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

اپریل 2018 میں انٹرپول نے ایف آئی اے کی جانب سے حقانی کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی درخواست کو رد کردیا اور لکھا، 'انٹرنیشنل کرمنل پولیس آرگنائزیشن (انٹرپول) کا جنرل سیکرٹریٹ تصدیق کرتا ہے کہ آج (18 اپریل ، 2018) ، مسٹر حسین حقانی ، یومِ پیدائش یکم جولائی 1956 کو انٹرپول بلیو نوٹس یا بازی کے تابع نہیں ہے اور انٹرپول کے ڈیٹا بیس میں معلوم نہیں ہے۔'

مارچ 2018 کے آخری ہفتے میں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ وہ حقانی کی واپسی میں مزید تاخیر برداشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ حقانی کی واپسی کے حوالے سے کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

انٹرپول نے سپریم کورٹ کی جانب سے جاری سابق سفارتکار کی گرفتاری کے خلاف وارنٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ ان کے خلاف الزامات 'سیاسی' تھے اور معیار پر پورا نہیں اترتے تھے۔

سپریم کورٹ کے اصرار پر ایف آئی اے نے ان کے خلاف غبن اور دیگر مبینہ جرائم کا مقدمہ درج کیا اور انٹرپول کو وارنٹ گرفتاری کی درخواست بھیجی۔

٭ میمو گیٹ سکینڈل

2011 میں حقانی کی جانب سے بھیجے گئے میمو میں مبینہ طور پر اسامہ بن لادن کو مارنے کے لیے ایبٹ آباد میں امریکی چھاپے کے بعد پاکستان میں ممکنہ بغاوت کا ذکر کیا گیا تھا۔ ایک جوڈیشل کمیشن نے جسے اس کیس کی تحقیقات کا کام سونپا گیا تھا، نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ میمو مستند اور سابق سفیر کی تصنیف ہے۔

پاکستان میں میموگیٹ اسکینڈل 2011 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصوراعجاز کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہیں حسین حقانی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا تھا جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو اس وقت کے امریکی ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کا کہا تھا۔

میمو گیٹ کیس سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس آصف کھوسہ کے ماتحت 14 فروری 2019 کو بند کیا تھا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا پاکستان کی جمہوریت اور ریاست اتنی نازک ہے کہ وہ میمو کی وجہ سے ٹوٹ سکتی ہے؟ کیا ریاست اب بھی خطرہ محسوس کرتی ہے؟ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان کی بنیادیں مضبوط ہیں اور ہمیں ایسے معاملات کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

Interpol