سابق برطانوی فوجی کی افغان کے روپ میں افغانستان سے فرار کی کہانی
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں طالبان کے مکمل کنٹرول کے بعد عوام کے ساتھ ساتھ ملک میں مقیم غیر ملکیوں کو بھی اپنی جان کی فکر پڑ گئی ہے اور جلد سے جلد کسی بھی طرح ملک چھوڑنے کی فراق میں ہیں۔
یہ کہانی 60 سالہ ریٹائرڈ برطانوی فوجی لائیڈ کامر کے افغانستان سے فرار کی ہے جنہوں نے اپنی جان بچانے کیلئے دفتر خارجہ کی ہدایات کو نظر انداز کیا اور افغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔
ڈیلی میل کے مطابق لائیڈ کامر نے 35 سال تک فوج میں خدمات انجام دیں، اور 2013 سے کابل میں نجی شعبے کے ساتھ کام کر رہے تھے۔
کابل میں طالبان کے کنٹرول کے بعد برطانوی دفترِ خارجہ نے اپنے لوگوں کو ہوائی اڈے سے دور رہنے کی ہدایت کی تھی، لیکن لائیڈ کامر نے ان ہدایات پر کان نہیں دھرے۔
بقول لائیڈ، 'اگر میں دفترِ خارجہ کی بات مانتا تو شاید زندہ نہ رہتا۔'
لائیڈ کامر نے بتایا، 'میں نے قمیص شلوار پہنی، رومال ڈال کر اپنا بھیس بدلا اور حامد کرزئی ایئرپورٹ کا سفر شروع کیا۔ ہوائی اڈے تک پہنچنے کیلئے ہم نے عام ٹیوٹا سیلون استعمال کی، راستے میں ہم نے 3 طالبان چوکیوں کو کراس کیا جہاں ہماری تلاشی بھی لی گئی۔'
انہوں نے کہا، 'میں نے نہیں جانتا تھا کہ اگر طالبان میری اصلیت جان لیتے تو میرے ساتھ کیا سلوک کرتے۔'
سابق فوجی نے کہا کہ انہوں نے ہوٹل پہنچ کر برطانوی فوجی افسران سے رابطہ کیا اور وہاں موجود دیگر برطانوی شہریوں کے ہمراہ ایئرپورٹ کےداخلی دروازے پر پہنچے۔
انہوں نے کہا کہ وہ ایئرپورٹ پر سی 17 طیارے پر سوار ہو کر متحدہ عرب امارات پہنچے وہاں سے اسپین اور پھر بالآخر برطانیہ مجھے میرے گھر پہنچایا گیا۔
سابق برطانوی فوجی لائیڈ کامر کا کہنا تھا کہ بحفاظت برطانیہ واپسی کے چار دن بعد انہیں دفتر خارجہ کی طرف سے کال موصول ہوئی جس میں پوچھا گیا کہ 'کیا آپ اب بھی کابل میں ہیں۔'
Comments are closed on this story.