کیا احمد شاہ مسعود کے بیٹے تاریخ دہرائیں گے؟
افغانستان کے ایک مقتول باغی کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں نے کل جمعہ کو دعویٰ کیا کہ انہوں نے شمالی افغانستان کے صوبے بغلان کے 3 اضلاع کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
پچھلے کچھ دنوں میں شائع ہونے والے مضامین میں احمد مسعود نے وادی پنجشیر میں طالبان کے خلاف مزاحمت پر زور دیا اور بین الاقوامی مدد بالخصوص امریکا سے ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کرنے کی اپیل کی تھی۔
اس کے علاوہ’ ٹویٹر‘ پر سرگرم کارکنوں نے ایسی ویڈیوز نشر کیں جن میں مزاحمتی گروپ کے زیر کنٹرول علاقوں کی عمارتوں میں سے ایک پر افغان جھنڈا بلند کرنے اور طالبان کے جھنڈے کو ہٹانے کو دکھایا گیا۔
٭احمد مسعود کی مدد کی اپیل
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان کے سابق مجاہدین کمانڈر احمد شاہ مسعود کے صاحبزادے احمد مسعود کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہیں۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں احمد مسعود لکھتے ہیں کہ ’میں آج وادی پنجشیر سے لکھ رہا ہوں اور تیار ہوں اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کے لیے اور مجاہدین جنگجو بھی تیار ہیں ایک بار پھر طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے پاس ہتھیار اور دیگر اسلحہٰ موجود ہے جو انہوں نے اپنے والد کے زمانے سے اکٹھا کرنا شروع کردیا تھا کیونکہ انہیں پتہ تھا اس کی ایک بار پھر ضرورت پڑ سکتی ہے۔
احمد مسعود کئی سال برطانیہ اور ایران میں جلاوطنی میں گزار چکے ہیں اور محدود سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
واضح رہے کہ پنجشیر افغانستان کے 34 صوبوں میں سے ایک ہے جو کابل سے تقریباً تین گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ یہ صوبہ طالبان کے پچھلے دور 1996 سے لے کر 2001 تک میں بھی طالبان کے کنٹرول میں نہیں تھا اور "شیر پنجشیر" کے نام سے مشہور احمد شاہ مسعود کی قیادت میں ناردرن الائنس (شمالی اتحاد) طالبان کے خلاف جنگ اسی علاقے سے لڑتا تھا۔ آج طالبان افغانستان کے تقریباً تمام علاقوں پر قبضہ کر چکے ہیں لیکن پنجشیر آج بھی ان کے کنٹرول سے باہر ہے۔
احمد مسعود کے والد احمد شاہ مسعود کو 'پنجشیر کے شیر‘ کا لقب دیا گیا تھا۔ کابل کے شمال مشرق میں واقع پہاڑی علاقے پنچشیر میں انہوں نے طالبان جنگجوؤں کو سخت مزاحمت دیکھائی تھی۔ طالبان اور القاعدہ کے مخالف احمد شاہ مسعود کو مبینہ طور پر اسامہ بن لادن کے حکم پر سن 2001 میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
احمد مسعود کے والد احمد شاہ مسعود کو "پنجشیر کے شیر" کا لقب دیا گیا تھا۔ کابل کے شمال مشرق میں واقع پہاڑی علاقے پنچشیر میں انہوں نے طالبان جنگجوؤں کو سخت مزاحمت دیکھائی تھی۔ طالبان اور القاعدہ کے مخالف احمد شاہ مسعود کو مبینہ طور پر اسامہ بن لادن کے حکم پر سن 2001 میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
1990 کی دہائی کے آخر میں احمد مسعود کے والد کے ہمراہ لڑنے والے ایک فرانسیسی شخص نے اے ایف پی کو بتایا کہ احمد شاہ مسعود کئی مہینوں سے مزاحمت کی تیاری کر رہے تھے، انہوں نے نوجوانوں کی فوج تیار کی ہوئی تھی جبکہ کئی گاڑیاں، ہیلی کاپٹر اور اسلحہ بھی ان کے پاس موجود تھا۔
احمد شاہ مسعود کے ہمراہ لڑنے والے فرانسیسی جنگجو کا کہنا تھا کہ فارسی بولنے والے پنجیشریوں کے مفادات کی نمائندگی روایتی طور پر سابق وزیراعظم ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ ہی کرتے رہے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ میں احمد مسعود کا مضمون پڑھ کر گمان ہوتا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ اس بار وہ اکیلے طالبان کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور انہیں اتحادیوں کی ضرورت ہے۔
ان کے ایک اتحادی افغانستان کے نائب صدر اور احمد شاہ مسعود کے پرانے ساتھی امراللہ صالح ہیں جنہوں نے اشرف غنی کے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے کے بعد اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں دعویٰ کیا تھا کہ ’افغانستان کے آئین کے مطابق صدر کی غیر موجودگی، فرار یا موت کی صورت میں نائب صدر ملک کا نگراں صدر بن جاتا ہے۔‘
انہوں نے مزید لکھا تھا کہ ’میں اس وقت اپنے ملک کے اندر موجود ہوں قانونی اعتبار سے نگران صدر ہوں۔‘
احمد شاہ مسعود کے بیٹے مزید لکھتے ہیں کہ افغانستان کی آرمی کے جوان بھی اپنے اعلیٰ افسران کے سرینڈر کے باعث ناخوش ہیں اور اپنے ہتھیاروں سمیت پنجشیر کے پہاڑوں کا رخ کررہے ہیں۔
تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ ’یہ سب کافی نہیں ہوگا‘ اور ان کی فوجی طاقت اور ہتھیار طالبان کے کسی بڑے حملے کی صورت میں لڑائی کے لئے ناکافی ہوں گے۔
احمد مسعود نے امریکا اور برطانیہ سمیت دیگر مغربی ممالک سے مدد کی اپیل بھی کی ہے۔
’طالبان اکیلے افغانوں کے لیے مسئلہ نہیں۔ طالبان کے کنٹرول میں افغانستان ایک بار پھر دہشت گردی کا گڑھ بن جائے گا، جہاں سے ایک پھر جمہوریت کے خلاف سازشیں ہوں گی۔‘
انہوں نے امریکا اور اس کے جمہوری اتحادیوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’آپ ہمارے لیے آخری امید ہیں۔‘
٭ کیا وادی پنجشیر اس دفعہ بھی طالبان کی مزاحمت کر پائے گی؟
افغانستان کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے امریکی تحقیقی ادارے "لانگ وار جرنل" کے ایڈیٹر بل روگیو نے انڈپینڈنٹ اردو کے نمائندے اظہاراللہ کو بتایا کہ پنج شیر چاروں اطراف صوبوں پر طالبان نے قبضہ کیا ہوا ہے لیکن ابھی تک پنج شیر میں داخل نہیں ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ "شیر پنجشیر" احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود اور ان کے خاندان کے لیے یہ ایک سخت کام ہوگا کہ وہ طالبان کے خلاف مزاحمت کر سکیں۔
بل نے بتایا، ’پنج شیر جس جگہ پر واقع ہے وہ دفاع کے لیے موزوں ہے لیکن طالبان کے پاس اب بے تحاشہ اسلحہ موجود ہے جس کو صوبوں پر قبضے کے بعد حاصل کر لیا گیا ہے اور وہ باور کرتے ہے کہ پنج شیر پر قبضہ کریں کیونکہ وہ طالبان حکومت کے لیے کوئی مزاحمتی خطہ نہیں چھوڑ سکتے۔‘
تاہم بل نے بتایا کہ ابھی تک یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا ہے کہ پنج شیر سے کب تک طالبان کو مزاحمت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
خیال رہے کہ طالبان کو صوبہ پنجشیر کی جانب سے کسی سنجیدہ نوعیت کے خطرے کا سامنا نہیں ہے۔ فی الحال مزاحمت صرف لفظوں تک ہی محدود ہے کیونکہ طالبان نے پنجشیر میں داخل ہونے کی کوشش ہی نہیں کی۔
اگر طالبان وادی کو چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں تو احمد مسعود ممکنہ طور پر چند ماہ سے زیادہ عرصے تک کے لیے مزاحمت جاری رکھ سکیں گے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دارالحکومت کابل کے شمال میں واقع پنجشیر سوویت یونین اور طالبان کے خلاف مزاحمت کا مرکز رہا ہے۔ لیجینڈری کمانڈر احمد شاہ مسعود نے وادی پنجشیر کا پہلے سوویت یونین اور بعد میں طالبان کے قبضے سے دفاع کیا۔
ہندو کش کے پہاڑوں میں گھری ہوئی وادی پنجشیر افغانستان کا واحد حصہ ہے جس پر فی الحال طالبان قبضہ نہیں حاصل کر سکے ہیں۔
Comments are closed on this story.