Aaj News

جمعہ, نومبر 15, 2024  
12 Jumada Al-Awwal 1446  

عالمی وباء اور سیاسی آرڈر

قسط#1 بڑےبحرانوں کے بڑے نتائج ہوتےہیں،جوعموماً غیر متوقع ہوتے...
شائع 10 اگست 2021 10:16pm

قسط#1

بڑےبحرانوں کے بڑے نتائج ہوتےہیں،جوعموماً غیر متوقع ہوتے ہیں۔ گریٹ ڈپریشن علیحدگی پسندی، قوم پرستی، فاشزم اور جنگِ عظیم دوم کی وجہ بنالیکن ایک نئے معاملے کی جانب بھی لےکرگیا یعنی متحدہ ریاست ہائےامریکاعالمی طاقت بن کر ابھرا اوربالآخرنوآبادیاتی نظام کا خاتمہ ہوا۔ 11 ستمبر کے حملے امریکا کی دو ناکام مداخلتوں، ایران کےابھر کرسامنے آنےاور اسلامی انتہاء پسندی کی نئی اقسام کا سبب بنے۔ 2008 کے معاشی بحران نے اسٹبلشمنٹ مخالف پاپولزم میں اضافہ پیدا کیا جس نے دنیا بھر میں رہنماؤں کو بدل دیا۔مستقبل کے تاریخ دان حالیہ کورونا وباء کے نسبتاً بڑے اثرات دیکھیں گے، مسئلہ ان کو وقت سے پہلے حل کرنا ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ کیوں کچھ ممالک نے دوسرے ممالک کے مقابلے میں اب تک اس بحران سے نمٹنے میں بہتر کارکردگی دِکھائی ہےاور یہ بات سوچنے کی ہروجہ موجود ہےکہ یہ رجحان جاری رہے گا۔یہ طرزِحکومت کی بات نہیں ہے۔کچھ جمہوریتوں نے اچھی کارکردگی دِکھائی لیکن دیگر نہ دِکھاسکیں اوریہی بات آمریتوں کےلئے بھی ہے۔ اس وباءسےکامیابی سے نمٹنے کےلئے ریاست کی قابلیت، معاشرتی اعتماد اورلیڈرشپ ذمہ دار عوامل ہیں۔جن ممالک میں تینوں ہیں(یعنی قابل ریاستی ادارے،ایک حکومت جس پرعوام اعتماد کریں اوراس کی بات سنیں اورمتاثر کن رہنماء) انہوں نے اپنے نقصانات کو محدود کرتے ہوئے مؤثر کارکردگی دِکھائی ہے۔وہ ممالک جو غیر فعال ریاستیں ہیں، جانبدار معاشرے ہیں یا نااہل لیڈرشپ ہے انہوں نے خراب کارکردگی دِکھائی ہے، رعایا کو بےیارو مددگار چھوڑا اور معیشتیں بےنقاب اور کمزور ہوئیں۔

معاشی اعتبار سے ایک طویل ہوتے بحران کا مطلب ہوگا مزیدناکام کاروبار اورشاپنگ مالز، ریٹیل چینز اور سیاحت جیسی انڈسٹریز کی تباہی۔ امریکی معیشت میں مارکیٹ کی سطح دہائیوں سےبہت سست رفتاری سے بڑھ رہی تھی اور یہ وباء اِس رجحان کومزیدآگے لےکر چلے گی۔ صرف بڑی کمپنیاں ٹیکنالوجی جائینٹس کے ساتھ اس طوفان سے نبردآزما ہونے کے قابل ہوں گے جیسےجیسے ڈجیٹل انٹرایکشن ضروری ہوتا جارہا ہے۔

سیاسی نتائج اس سے بھی زیادہ اہم ہوسکتے ہیں۔ لوگوں کو اجتماعی قربانیوں کا حکم دیا جاسکتا ہے لیکن ہمیشہ۔ طویل ہوتی وباء کے ستاھ نوکریوں کا ختم ہونا، طول پکڑتا ریسیشن اور قرضوں کا بوجھ جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، لازمی طور پر تناؤ پیدا کرے گا جو سیاسی ردِ عمل میں بدل جائے گا-لیکن کس کے خلاف یہ ابھی واضح نہیں۔

چونکہ مشرقی ایشیاء نے یورپ اور امریکا سے بہتر طریقے صورتحال کو سنبھالا ہے اس لئےطاقت کی عالمی تقسیم کی منتقلی مشرق کی طرف جاری رہے گی۔دنیا بھر میں حکومتوں نے پہلے بدتر کارکردگی دِکھائی اور واضح دِکھتے اورشہریوں کےلئے مہلک ہوتے جانے کے باوجودمعاملے کو چُھپانے کی کوشش کی ۔ اور کم از کم بیجنگ نے صورتحال پر قابو پالیا اور اگلے مسئلے یعنی معیشت کو دوبارہ اپنی رفتار پر لانے اور مستحکم کرنے میں لگ گئے۔

اس کےبرعکس امریکا نمٹنے میں بری طرح ناکام ہوا اور بڑے پیمانے پر اپنا وقار جاتے دیکھا۔ امریکا کے پاس ریاستی سطح پر وسیع صلاحیت تھی اور گزشتہ وبائی امراض کےبحرانوں میں اس کاریکارڈ زبردست تھا لیکن اس کے حالیہ شدید جانبدار معاشرے اور نااہل سربراہ نے ریاست کی فعالی میں رکاوٹ حائل کی۔ صدر نے یکجہتی کا پرچار کرنےکےبجائےدراڑ پیدا کی، امداد کی تقسیم کو سیاسی بنایا، اہم فیصلے کرنے کی ذمہ داری گورنروں پر ڈالی جبکہ ان کے پبلک ہیلتھ بچانے کےخلاف ہونے والے مظاہروں کی حوصلہ افزائی کی اور بین الاقوامی اداروں کو متحرک کرنے کے بجائے ان پر حملہ کیا۔دنیا نے دیکھا اور فوراًہی چین کے ساتھ موازنہ واضح کردیا۔

آنے والے برسوں میں وباء امریکا کی تنزلی، بین الاقوامی لبرل آرڈر کے خاتمے کے تسلسل اور دنیا بھر میں فاشزم کے سر اٹھانے تک لے جاسکتی ہے۔ یہ لبرل جمہوریت (ایک ایسا نظام جس نے تشکب پسندوں کو کئی بار پریشان کیا)کواسکی لچک اورتجدید کی طاقت دِکھاتے ہوئےدوبارہ جنم بھی دے سکتی ہے۔ دونوں معاملات کے عناصر مختلف جگہوں پر سامنے آئیں گے۔

سراٹھاتا فاشزم؟

منفی نتائج کا تصور آسان ہے۔ قومیت پرستی، علیحدگی پسندی، غیرملکیوں سے نفرت اور لبرل ورلڈ آرڈر پر حملے عرصے سے بڑھ رہے ہیں اور یہ رجحان صرف یہ وباء بڑھائے گی۔ہنگری اور فلپائنس کی حکومتوں نے اس بحران کو خود کو ایمرجنسی اختیارات دینے کےلئے استعمال کیا، کئی اور ممالک نے بھی یہ اقدامات کیے۔ ہر جگہ لوگوں کی آمد و رفت پرپابندیاں عائد ی گئیں، بشمول یورپ کے دل کے؛ بجائے اس کے کہ اپنے مشترکہ فوائد کےلئے تعاون کرتے، ممالک اندرونی سمت پر چل پڑے، ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑنے لگے اوراپنے حریفوں کو اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار قرار دینے لےلگے۔

قوم پرستی کا سراُٹھانا بین الاقوامی تنازعات کے امکان کو بڑھائے گا۔ سربراہ غیر ملکیوں سے جھگڑوں کواندرونی سیاست سے توجہ ہٹانے کےلئے کارگر آلے کے طور پر دیکھتے ہیں یا وہ اپنے مخالفین کے متعلق خیالات یا کمزوریوں کے بہکاوے میں آکر اور وباء کا فائدہ اٹھا کر اپنے من پسند اہداف کو غیر مستحکم کرسکتے ہیں یا نئے حقائق بنا سکتے ہیں۔

گنجان شہراور کمزور پبلک ہیلتھ کیئر نظام والے غریب ممالک شدید زد میں آئیں گے۔ صرف معاشرتی فاصلہ ہی نہیں بلکہ عام سی چیز یعنی کچھ ممالک میں ہاتھ دھونا انتہائی مشکل ہےکیوں کہ شہریوں تک صاف پانی کی رسائی نہیں ہے۔ اور حکومتوں نے معاملات کوبہتر کرنے کے بجائے بدترکیا ہے-آیا پوری منصوبہ بندی سے، باہمی تناؤ بھڑکا کراور معاشرتی ہم آہنگی سبوتاژ کر کے یا پھر نِری نااہلی سے۔مثال کے طور پر بھارت نےدیگر شہروں میں گئے کروڑوں مزدوروں کے متعلق نتائج سوچے بغیر اچانک ملک گیر شٹ ڈاؤن سے اپنی کمزوری کو بڑھایا۔کئی اپنے دیہی گھروں کو چلے گئے، ساتھ ہی ملک بھر میں بیماری پھیلاتے گئے۔ایک بڑی تعداد بغیر نوکری اور چھت کے شہروں میں پھنس کر رہ گئی تھی۔

آخر میں،بلیک سوان سےموسوم ظہور تعریف کے اعتبار سے غیر متوقع ہوتے ہیں لیکن ویسے ہی لگتے جیسےان سے پہلے دِکھتےہیں۔ماضی کی وباؤں نے قیامت کا تصور کھینچا،فرقے بنائے اورطویل مشکلات کے سبب ہونے والی شدید بے چینی نے نئے مذاہب پروان چڑھائے۔ فاشزم بھی ایسے ہی ایک فرقے کی طرح دیکھا جاسکتا ہے جو جنگِ عظیم اول اور اس کے نتائج کے سبب ہونے والے مظالم کے سبب اُبھرا۔

فرانسس فُوکو یاما کا مضمون جو فارن افیئر میگز میں شائع ہوا.

World War 2

COVID19

9/11