سابق امریکی صدر نے امریکی فوج کا انخلا "غلطی" قرار دیدیا
افغانستان میں جنگ کا آغاز کرنے والے سابق امریکی صدر جارج واکر بش نے بدھ کے روز دئے گئے اپنے بیان میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کو ایک بڑی "غلطی" قرار دیا ہے۔
بش نے ایک انٹرویو کے دوران کہا، 'مجھے ڈر ہے کہ افغان خواتین اور لڑکیوں کو ناقابل بیان نقصان پہنچایا جائے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ اس کے نتائج ناقابل یقین حد تک خراب ہوں گے۔'
گیارہ ستمبر 2001 کو ہونے والے دہشت گردی کے حملوں کے بعد افغانستان پر حکمرانی کرنے والے طالبان نے القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے سے انکار کے بعد، بش کے زیر اقتدار امریکا نے 2001 میں افغانستان پر حملے کا آغاز کیا تھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے حملوں کی 20 ویں برسی تک امریکی افواج کے مکمل انخلا کا حکم دیا تھا، جس سے ممکنہ طور پر امریکا کی "طویل ترین جنگ کا خاتمہ ہو جائے گا"۔ حالانکہ حالیہ مہینوں میں طالبان نے افغان سرکاری افواج کے خلاف میدان جنگ میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
بش نے ان افغان شہریوں کے حوالے سے بھی خدشہ ظاہر کیا جنہوں نے امریکی اور نیٹو افواج کے ترجمان کی حیثیت سے کام کیا۔ بش کا خیال ہے کہ 'وہ صرف ان انتہائی سفاک لوگوں کے ہاتھوں ذبح کرنے کے لئے پیچھے چھوڑ دئے جائیں گے، اس سے میرا دل ٹوٹ جاتا ہے۔'
بائیڈن اور ان کی انتظامیہ نے عزم کا اظہار کیا ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ان افغان شہریوں نے جنہوں نے امریکا کے لئے کام کیا، بشمول ترجمان اور مترجمین، ان کے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ ان کا بھی خیال رکھا جائے۔
اس وقت تقریباً 18،000 افغانی خصوصی ویزا کے لئے درخواست دینے کے عمل میں ہیں جس سے انہیں اور ان کے اہل خانہ کو امریکا لایا جاسکے۔
توقع ہے کہ امریکی انخلا اگست کے آخر تک مکمل ہوجائے گا، امریکی سنٹرل کمانڈ نے منگل کو کہا کہ یہ عمل 95 فیصد سے زیادہ مکمل ہوچکا ہے۔
دوسری جانب ترجمان افغان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ دوحہ میں ہماری مذاکراتی ٹیم موجود ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ مذاکرات کامیاب ہوں گے، مجبور نہیں کیا گیا تو سخت قدم نہیں اٹھائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ شہری لوگوں کو نقصان نہیں پہنچائیں گے، خواتین کے تمام شرعی اور معاشی حقوق دیں گے، تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ کریں گے، اسلام اقلیتوں کو حقوق دیتا ہے اس پر کاربند رہیں گے۔
Comments are closed on this story.