افغان اسپیشل فورسز کے جوان طالبان کے خلاف کارروائی سے پہلے باجماعت نماز کیوں ادا کرتے ہیں؟
افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار میں شاہراہ کے ایک ویران حصے پر افغانستان کے اسپیشل فورسز کے سپاہی اتوار کی رات دیر گئے ایک مختصر نماز کے لئے رکے۔ اسپیشل فورسز کے یہ جوان جب بھی جنگ میں طالبان عسکریت پسندوں کا مقابلہ کرنے کی تیاری کرتے ہیں تو اسی طرح ایک بار باجماعت نماز ادا کرتے ہیں۔
اسپیشل فورسز کے اعلیٰ تربیت یافتہ فوجیوں کو چند گھنٹوں قبل فورسز اور مقامی پولیس پر حملہ کرنے والے شورش پسندوں کو نکالنے کے لئے طلب کیا گیا تھا، تاہ م موقع پر پہنچنے پر معلوم ہوا کہ طالبان چند شہریوں اور زخمی فوجیوں کو چھوڑ کر اندھیرے میں غائب ہوگئے ہیں۔
طالبان کے سابقہ مضبوط گڑھ قندھار میں تعینات اسپیشل فورس یونٹ کے ایک ممبر، میجر محمد دین تاثیر نے کارروائی کے بعد رائٹرز کو بتایا، 'ہمیں ایک اطلاع موصول ہوئی کہ یہاں دشمن گھس چکے ہیں اور وہ ضلع کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔'
انہوں نے بتایا کہ رپورٹ کے مطابق اس علاقے میں 300 طالبان جنگجو موجود تھے۔ 'بدقسمتی سے ہم نے رپورٹ میں جو کچھ سنا اور جائے وقوعہ پر ہم نے جو کچھ دیکھا وہ زمینی حقائق سے مختف تھا۔'
میجر تاثیر نے کہا کہ طالبان جنگجوؤں کی عدم موجودگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے 85 فیصد علاقے کو کنٹرول کرنے کے ان کے دعووں میں مبالغہ آرائی موجود ہے۔
انہوں نے دشمن کا سامنا کرنے میں بھی دشواری کی نشاندہی کی جو چوکیوں، دیہاتوں، قصبوں اور شہروں پر کھلے عام حملہ کرتے ہیں اور بھاری جانی نقصان سے بچنے کے لئے "ہٹ اینڈ رن" تکنیک کا استعمال کرتے ہیں۔
قندھار بہت سے دیگر صوبوں کی طرح ہے جہاں طالبان نے حملے کیے ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ ملک کو امن کے ساتھ چلانا چاہتے ہیں۔
گذشتہ ہفتے طالبان نے ملک کے مغرب میں ایرانی سرحد کی طرف پیش قدمی کی اور مرکزی شہر غزنی کو گھیر لیا تھا۔
طالبان نے جب قندھار کے داند ضلع میں ایک گاؤں خان بابا پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو اسپیشل فورسز کو بلایا گیا۔ طالبان نے راکٹوں اور بھاری مشین گنوں سے سکیورٹی فورسز اور پولیس پر حملہ کیا۔
اسپیشل فورسز نے رات کو استعمال ہونے والے آلات اور گولیوں سے چھلنی ’ہم وی‘ گاڑیوں کے ساتھ اندھیرے میں سفر کیا۔ جب وہ پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ گاؤں خالی تھا۔ افغانستان کی فضائیہ نے طالبان کو واپس مڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔
اسپیشل فورسز کے اہلکاروں نے خاموشی اور تیزی کے ساتھ گھروں کی تلاشی لی۔ انہیں گاؤں کے چند بزرگ افراد ملے جنہوں نے کہا کہ لڑائی شروع ہوتے ہی لوگ گاؤں چھوڑ کر نکل گئے۔
پیر کو افغان وزارت دفاع کے حکام نے ٹوئٹر پر لکھا کہ قندھار کے دو اضلاع میں فضائی حملوں اور آپریشن کے ذریعے 26 شدت پسندوں کو مار دیا گیا۔ روئٹرز آزاد ذرائع سے اس بات کی تصدیق نہیں کر سکا۔
جب آپریشن مکمل ہو گیا تو اگلے مشن کے احکامات ملنے سے پہلے سپیشل فورسز نے آرام کے لیے مختصر وقفہ لیا۔
خیال رہے کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد ملک کو شدید حفاظتی بحران کے منجھدار سے نکالنے کا ذمہ اب افغان سیکیورٹی فورسز پر ہے۔
واضح رہے کہ افغنستان میں جنگ کی قیادت کرنے والے جنرل آسٹن ملر اپنے عہدے سے سبکدوش ہوچکے ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ امریکا اب افغانستان میں اپنی جنگ ختم کرچکا ہے۔
Comments are closed on this story.