Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

را اور پاکستان مخالف بھارتی عناصر کا افغانستان سے انخلا؟

جہاں امریکی فوجیوں کے ملک سے انخلا کے عمل میں تیزی لانے کی توقع...
اپ ڈیٹ 05 جولائ 2021 09:11am

جہاں امریکی فوجیوں کے ملک سے انخلا کے عمل میں تیزی لانے کی توقع کی جارہی ہے، وہیں افغانستان میں تیز رفتاری سے بدلتی صورت حال کے پیش نظر غیر ریاستی عناصر ایک بار پھر اپنی گرفت کو بڑھانے کے لئے ملک میں پاور ویکیوم کو استعمال کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتی افواہوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت اپنے اہلکاروں کو افغانستان سے نکال رہی ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکی اور اتحادی افواج کے تمام فوجی بگرام جو افغانستان کا سب سے بڑا اور سب سے اہم ایئربیس ہے خالی کرچکے ہیں، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ ملک میں دو عشروں سے جاری جنگ کے اختتام کا وقت قریب آچکا ہے۔

"پاک انٹیل مانیٹر" نامی ایک سوشل میڈیا ہینڈل کے مطابق، بھارتی ایئر فورس کے ایک C-17 طیارہ کو افغانستان کے ہنڈن ایئر فورس اسٹیشن سے ہندوستان پہنچنے کے لئے 6 گھنٹے کی پرواز کرنی پڑی۔ پرواز کا یہ طویل دورانیہ مبینہ طور پر پاکستان کی جانب سے بھارتی طیاروں کو اپنی فضائی حدود کے استعمال کے انکار کی وجہ سے تھا۔ ٹویٹ میں C-17 طیارے کے ذریعےاختیار کیا گیا راستہ شامل دکھایا گیا ہے۔

ٹوئٹر/ پاک انٹیل مانیٹر

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی افواہوں کے مطابق بھارتی فضائیہ اپنے انٹیلیجنس اور سفارتی عملے کو افغانستان سے نکالنے کے لئے سرگرم ہے۔ اے آئی بورڈ پی ایس ایف نامی ایک اور پاکستانی اکاؤنٹ نے مذکورہ ٹویٹ کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے فوجی طیاروں کے لئے فضائی حدود کے استعمال کی اجازت نہ دینے بعد بھارت افغانستان کے لئے بہت لمبا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوا۔ بھارت افغانستان سے اپنے کچھ اہلکاروں کو نکال رہا ہے۔

ٹوئٹر/ اے آئی بورڈ پی ایس ایف

تاہم، اس بات کو دی ولف پیک نامی ہندوستانی اکاؤنٹ نے مسترد کرتے ہوئے اسے "فیک نیوز" یعنی جعلی خبر قرار دیا۔ اس اکاؤنٹ کے مطابق، بھارت افغانستان سے کسی بھی اہلکار کو نہیں نکال رہا ہے۔ اکاؤنٹ نے دعویٰ کیا کہ یہ پروازیں "ڈیلیوریز" کے لئے ہیں نہ کہ عملے سے وابستہ۔

ٹوئٹر / دی وولف پیک

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انٹرنیٹ پر یہ تمام باتیں غیرسرکاری ہیں، اور سرکاری ذرائع سے کسی بھی چیز کی تصدیق نہیں ہوئ ہے۔

افغانستان میں بھارتی مداخلت

بین الاقوامی اور مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں گردش کرتی رہی ہیں کہ بھارت طالبان کے ساتھ بات چیت کرتا رہا ہے کیونکہ وہ دیکھ رہا ہے کہ افغانستان میں صورتحال بدتر ہوتی جارہی ہے۔

ہندوستانی اخبار "دی ہندو" کی ایک خبر کے مطابقں قطر کے ایک سینئر عہدیدار کے حوالے سے تصدیق کی گئی ہے کہ ہندوستانی حکام نے وہاں موجود طالبان کی سیاسی قیادت سے ملنے کے لئے دوحہ کا "خفیہ دورہ" بھی کیا تھا۔

جس پر مشیر قومی سلامتی پاکستان ڈاکٹر معید یوسف نے کہا تھا کہ طویل عرصے تک باغی گروپس کے خلاف کارروائیوں کی حمایت کرنے کے بعد قطر میں افغان طالبان کو شامل کرنا بھارت کی "بے شرمی" ہے۔

معید یوسف نے زور دے کر کہا تھا کہ 'بھارت جن طالبان سے ملاقات کر رہا ہے وہ بھی ''احمق نہیں'' ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ انہیں افغانستان اور امریکا سے افغانستان سے انخلا کے دوران بھارت اور باغی گروپ کے درمیان رابطوں کی کوئی فکر نہیں ہے۔'

انہوں نے مزید کہا ، 'آپ کو یہ بھی پوچھنا چاہئے کہ (بھارت) کو (طالبان) کی طرف سے کیا جواب ملا'۔

جب بھارت کی جانب سے موصول ہونے والے جواب کے لئے دباؤ ڈالا گیا تو معید یوسف نے صرف اتنا کہا، 'ان سے پوچھ لیں، (جو جواب انہیں ملا ہے) وہاس سے مزید شرمندہ ہوں گے'۔

حال ہی میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت، افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھاکہ بھارت دہشت گردوں کو اسلحہ دیتا ہے، مالی مدد دیتا ہے اور تربیت بھی کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت، افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے، جوہر ٹاؤن واقعے نے ہمارے خدشات درست ثابت کردیے اور اس حوالے سے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔

Evacuation from Afghanistan