Aaj News

جمعرات, دسمبر 19, 2024  
16 Jumada Al-Akhirah 1446  

بجٹ 22-2021: ٹیلی کام انڈسٹری اور انٹرنیٹ صارفین ٹیکسز کی زد میں

حکومت نے نئے مالی سال کے لیے 8 ہزار ارب روپے کے لگ بھگ مالیت کا ...
اپ ڈیٹ 12 جون 2021 08:48am

حکومت نے نئے مالی سال کے لیے 8 ہزار ارب روپے کے لگ بھگ مالیت کا بجٹ پیش کردیا، جس میں موبائل فون کالز، ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ پیکیجز مہنگے کردیے گئے ہیں۔

اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں حکومت کی جانب سے وزیر خزانہ شوکت ترین نے بجٹ تقریر پیش کی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ 3 منٹ سے زائد جاری رہنے والی موبائل فون کالز، انٹرنیٹ ڈیٹا کے استعمال، ایس ایم ایس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگائی جارہی ہے جس سے آبادی کے بڑے حصے پر ٹیکس نافذ ہوگا۔

خیال رہے کہ پاکستانی صارفین پہلے ہی ٹیلی کام اور انٹرنیٹ خدمات پر ود ہولڈنگ ٹیکس، سیلز ٹیکس اور دیگر اِن ڈائریکٹ ٹیکسز ادا کررہے ہیں اور اب آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ایک جی بی ڈیٹا کے استعمال پر پانچ روپے ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے، اسی طرح تین منٹ سے زائد کی کال یا ایس ایم ایس پر بھی ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔

وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ موبائل سروسز پر موجودہ ود ہولڈنگ ٹیکس 12.5 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد کردیا جائے گا اور کچھ عرصے بعد 8 فیصد کیا جائے گا۔ ساتھ ہی آئندہ بجٹ میں موبائل فون کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھائی جارہی ہے۔

واضح رہے کہ تقریر کے اختتام پر وزیر اعظم عمران خان نے وزیر خزانہ کو ان کی نشست پر جا کر شاباشی بھی دی۔

دوسری جانب بجٹ میں ایک جی بی سے زائد انٹرنیٹ ڈیٹا کے استعمال اور ایس ایم ایس پر ٹیکس لگنے کے فیصلے کو ٹیلی کام انڈسٹری اور صارفین نے ڈیجیٹل پاکستان کے تصور کے منافی قرار دے دیا ہے۔

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا درجہ 90 ہے اور ایشیاء میں پاکستان کا شمار دوسرے پست ملک کے طور پر کیا جاتا ہے۔

ٹیلی کام انڈسٹری کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیلی کام سروسز پر مزید ٹیکسوں سے عوامی رابطوں کا بنیادی حق بھی مشکل ہوجائے گا۔

ماہرین کے مطابق وفاقی حکومت نے بجٹ میں ٹیلی کام سروسز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور ود ہولڈنگ کی شرح میں کمی کی ہے لیکن یہ مجموعی 3.5 فیصد کا ریلیف ہے جو ایک جی بی ڈیٹا یا تین منٹ کے دورانیے سے زائد کی کال پر عائد کیے جانے والے ٹیکسوں کی وجہ سے زائل ہوجائے گا۔

واضح رہے کہ آن لائن ایجوکیشن کی وجہ سے ایک عام طالب علم ماہانہ 25 جی بی ڈیٹا استعمال کررہا ہے اس طرح ایک طالب علم کو اوسطاً 125روپے کا اضافی ٹیکس ادا کرنا پڑے گا، پاکستان میں زیادہ تر کاروبار آن لائن طریقہ اختیار کررہے ہیں اور ہوم ڈیلیوری کا تصور بھی صرف انٹرنیٹ کالز اور ایس ایم ایس کے مرہون منت ہے، انٹرنیٹ کالز اور ایس ایم ایس پر ٹیکس بڑھانے سے ای کامرس کا شعبہ بھی متاثر ہوگا۔

کراچی سمیت دیگر شہروں میں کام کرنے والے مزدور اور چھوٹی ملازمت کرنے والے زیادہ تر افراد شام کو کام کاج سے فارغ ہو کر اپنے گھروں پر یومیہ بنیادوں پر طویل کال کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے خاندان کے حالات سے باخبر رہ سکیں، انٹرنیٹ اور کالز پر ٹیکس بڑھانے سے اب یہ سہولت بھی مشکل ہوجائے گی اور مہنگائی کی وجہ سے پریشان دوسرے شہروں میں کام کرنے والے مزدور طبقے کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دریں اثنا وفاقی وزیر حماد اظہر نے ایک جی بی ڈیٹا اور تین منٹ کی کال پر ٹیکس کے نفاذ پر صارفین کو تسلی دیتے ہوئے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ وزیر اعظم اور کابینہ نے اس تجویز کی منظوری نہیں دی اور اسے فنانس بل کے حتمی مسودے کا حصہ نہیں بنایا جائے گا۔

ٹوئٹر حماد اظہر

دوسری جانب ملک بھر میں انٹرنیٹ ڈیٹا پر فی جی بی پانچ روپے ٹیکس لگانے کی تجویز کو وزیراعظم عمران خان نے مسترد کر دیا۔

وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی ابلاغ ڈاکٹر شہباز گل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ایک تجویز دی گئی کہ انٹرنیٹ ڈیٹا پر فی جی بی پانچ روپے ٹیکس لگایا جائے۔

انہوں نے اپنے ٹویٹ میں بتایا کہ وزیراعظم صاحب اور کابینہ نے اسے منظور نہیں کیا۔ وزیراعظم چاہتے ہیں کہ انٹرنیٹ تک رسائی ہر شخص کو ہونی چاہئیے اس لئے انٹرنیٹ پر کوئی اضافی ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔ تاکہ یہ عام آدمی کی قوت خرید میں رہے۔

ٹوئٹر / شہباز گل

Internet Data