ایف بی آر کی پرائیویٹ کمپنی کی خدمات لینےسے متعلق کیس کی سماعت
سپریم کورٹ نےپاکستان ریونیواٹومیشن پرائیوٹ کمپنی سےبھرتیوں کے طریقہ کاراورایکسپرٹیزسے متعلق جواب طلب کرلیا۔کمپنی دوماہ میں اپنے کام کےحوالے سے تمام تفصیلات جمع کرائے۔عدالت نے ایف بی آراور کمپنی کو 1994 سے پہلے اوربعد میں انکم ٹیکس کی رقم جمع کرانے کا بھی حکم دے دیا۔
چیف جسٹس گلزاراحمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نےایف بی آر کی پرائیویٹ کمپنی کی خدمات لینےسے متعلق کیس کی سماعت کی۔
جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی نےاستفسارکیا آپ نےکمپنی میں 6 چھ ڈائریکٹررکھے ہیں ان کی اہلیت کیا ہے؟
وکیل کمپنی سےمکالمہ میں چیف جسٹس نےاستفسار کیا کمپنی ایف بی آرمیں ٹیکس جمع کرنےکےلئےکام کرتی ہے یا دوسرے معاملات بھی دیکھتی ہے؟بجٹ کون دیتا اورکمپنی کا اصل مقصد کیا ہے۔ایکسپرٹس کی بھرتی کا طریقہ کارکیا ہے؟
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہاکہ اہلیت کی جانچ کی جائے گی۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کمپنی نے اب تک ایسا کوئی کام کیا ہے جس سے ایف بی آر کو فائدہ ہوا ہو۔ ہمارے پاس پہلے ہی پنجاب کی 56 کمپنیوں والا معاملہ بھی چل رہا ہے۔
جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی نے کہا کہ پنجاب کی 56 کمپنی والے میں بھی ایک لاکھ والے کو 15 لاکھ تنخواہ دی جارہی تھی۔
عدالت نے ایف بی آر اور کمپنی کو 1994 سے پہلے اور بعد میں انکم ٹیکس کی رقم جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
Comments are closed on this story.