میرا خارجہ پالیسی کو متعین کرنے میں کوئی کردار نہیں، جواد ظریف
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ’ان پر پاسداران انقلاب کی کارروائیوں کی حمایت کے لیے سفارت کاری کی قربانی دینے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا۔‘
عرب نیوز کے مطابق محمد جواد ظریف کے لندن میں ایران نیشنل ٹی وی چینل کو تین گھنٹے طویل انٹرویو میں ایرانی خارجہ پالیسی پر پاسداران انقلاب کے کنٹرول کا انکشاف ہوا ہے۔
جواد ظریف نے بتایا کہ ’قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی جو سمندرپار کارروائیوں کے ذمہ دار تھے، نے وسیع تر خارجہ پالیسی کو براہ راست اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔‘
سلیمانی گذشتہ سال جنوری میں بغداد میں امریکی حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
ایران انٹرنیشنل کے مطابق جواد ظریف نے کہا کہ ’سلیمانی کے اثر و رسوخ کا مطلب یہ تھا وہ ایسی سفارت کاری چاہتے تھے جو خطے میں ایران کی عسکری کارروائیوں کی حمایتی ہو۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’دوسری جانب میں کبھی بھی سلیمانی کو ایسا کچھ کرنے کے لیے نہیں کہہ سکا جو میرے سفارتی اقدامات کے مطابق ہو۔‘
انہوں نے سلیمانی پر ان کی ہدایت کو نظرانداز کرتے ہوئے ایران کی قومی ایئر لائن کو شام میں نقل و حمل کے لیے استعمال کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’سلیمانی کے دباؤ کی وجہ سے دمشق جانے والی پروازوں میں خاطرخواہ اضافہ ہوا۔ ایرانی ایئرلائنز کی بڑی تعداد پر شام میں بشارالاسد کی حمایت میں اسلحہ لے جانے کے لیے پابندی لگی۔‘
چینل کے مطابق یہ انٹرویو صحافی سعید لیلاز کو مارچ میں دیا گیا تھا تاہم اسے صدر حسن روحانی کے اگست میں دفتر چھوڑنے کے بعد شائع کرنے کا ارادہ کیا گیا تھا۔
جواد ظریف نے بتایا کہ ’ایران سفارت کاری پر اپنی جنگی کارروائیوں کو ترجیح دیتا ہے اور ان کا ایران کی خارجہ پالیسی کو متعین کرنے میں کوئی کردار نہیں ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’سلیمانی کا 2015 کے جوہری معاہدے کے بعد ماسکو کا فوری دورہ معاہدے کو نقصان پہنچانے کے لیے تھا۔‘
Comments are closed on this story.