Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

رسول اللہ ﷺ کی بکریوں کا سارا دودھ پی جانے والاجب مسلمان ہوا تو۔۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص تھا، جو...
شائع 22 اپريل 2021 09:16am

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص تھا، جو (پہلے تو ) بہت زیادہ کھایا کرتا تھا، مگر جب مسلمان ہوا تو کم کھانے لگا، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ 'حقیقت یہ ہے کہ مؤمن تو ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔ ( بخاری )

اور مسلم نے اس روایت کو حضرت ابو موسیٰ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے، جس میں (یہ واقعہ مذکور نہیں ہے بلکہ) محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مذکور ہے۔

لیکن مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک اور روایت نقل کی ہے جس میں یوں ہے کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ایک مہمان آیا جو کافر تھا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے ایک بکری دوہنے کا حکم دیا، بکری دوہی گئی اور اس کافر نے اس دودھ کو پی لیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے دوسری بکری دوہی گئی، وہ اس دودھ کو بھی پی گیا، پھر جب صبح ہوئی تو وہ مسلمان ہو گیا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس وقت بھی) اس کے لئے ایک بکری دوہنے کا حکم دیا۔ بکری دوہی گئی اور اس نے اس کا دودھ پی لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری بکری دوہنے کا حکم دیا (بکری دوہی گئی) لیکن (اب) وہ اس کا پورا دودھ نہ پی سکا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، 'مؤمن ایک آنت میں میں پیتا ہے اور کافر سات آنتوں میں ۔'

٭ تشریح

کہا جاتا ہے کہ انسان کے پیٹ میں آنتیں ہوتی ہیں لیکن اس سے قطع نظر یہاں ایک آنت اور سات آنت سے مراد قلب حرص اور کثرت حرص ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کھانے پینے میں کم حرص رکھتا ہے اور کافر زیادہ حرص رکھتا ہے اور یہ بات اکثر و اغلب کے اعتبار سے ہے یا اس مخصوص شخص کی حالت بیان کرنا مراد ہے، جس کا روایت میں ذکر کیا گیا ہے کہ وہ جب مسلمان ہوا تو کم کھانے لگا، لیکن جب کافر تھا تو زیادہ کھاتا، یا کامل الایمان مؤمن مراد ہے، کہ وہ ذکر الہٰی کی برکت اور نور و معرفت ایمان کے سبب ہمہ وقت سیر رہتا ہے کہ اس کو نہ کھانے پینے کی حرص ہوتی ہے اور نہ کھانے پینے کے اہتمام کی طرف رغبت، اس کے برعکس کافر کا حال دوسرا ہوتا ہے۔

درحقیت اس حدیث میں یہ تنبیہ ہے کہ مؤمن کی شان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ صبر و قناعت کو لازم جانے، زہد و ریاضت کی راہ کو اختیار کرے، خوردونوش کی اسی حد پر اکتفا کرے جو زندگی کی بقاء کے لئے ضروری ہو، اور معدے کو اتنا خالی رکھے۔ جو نورانیت دل، صفائی باطن اور شب بیداری وغیرہ کے لئے ممد و معاون ہو۔

منقول ہے کہ ایک مرتبہ ایک فقیر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور بہت زیادہ کھا کر اٹھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اس کو اتنا زیادہ کھاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کے آئندہ اس کو میرے پاس نہ آنے دیا جائے، علماء نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ جب اس فقیر نے اس قدر غیر معمولی طور پر کھایا تو گویا وہ کفار کے مشابہہ ہوا اور جو شخص کافروں کی مشابہت اختیار کرے اس سے ملنا جلنا ترک کر دینا چاہئے۔

واضح رہے کہ کم کھانے کی عادت اختیار کرنا، عقلاء باہمت اور اہل حقیقت کے نزدیک مستحسن و محمود ہے، اور اس کے برعکس مذموم ہے، لیکن وہ بھوک جو حد افراط کو پہنچ جائے، ضعف بدن اور قوائے جسمانی کے اختلال کا باعث ہو اور جس کی وجہ سے دین و دنیا کے امور کی انجام دہی میں رکاوٹ پیدا ہو، وہ ممنوع اور طریقہ حکمت کے منافی ہے۔