”کیا سپریم کورٹ کو سرکاری دفتر سمجھ رکھا ہے؟جوایسی رپورٹ جمع کرائی“
کراچی :سپریم کورٹ میں رائل پارک ریزیڈنسی انہدام کیس میں چیف جسٹس گلزار احمد نے برہمی کا اظہار کرتےہوئے ریمارکس دیئے کہ کمشنر کراچی کیا کر ہے ہیں؟ انہیں فارغ کردیں،کیسی رپورٹ دی ہے؟ کیا سپریم کورٹ کو سرکاری دفتر سمجھ رکھا ہے؟ جو ایسی رپورٹ جمع کرائی،کیا ہم اس رپورٹ پر انحصار کریں گے؟۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے رائل پارک ریزیڈنسی انہدام کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس نے کمشنر کراچی کی سرزنش کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ کیا سمجھتے ہیں ہم صرف آپ کی رپورٹ پر انحصار کریں گے؟ یہ کیا لکھ کر دیا ہے ڈپٹی کمشنر نے ؟ کیا سپریم کورٹ کو سرکاری دفتر سمجھا ہوا ہے۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے کہا کیا کر رہے ہیں یہ کمشنر فارغ کردیں، کیا سپریم کورٹ میں ایسی رپورٹ پیش کی جاتی ہے۔
کمشنر کراچی نے کہا کہ وائی ایم سی ای میں 500 درخت لگا دیئے ، واکنگ ٹریک بن گیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل صاحب یہ ہوتی ہے رپورٹ ؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا عدالتی حکم پر عملدرآمد ہورہا ہے، پیشرفت رپورٹ پیش کی گئی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کمشنر اپنی رپورٹ میں کہہ رہا ہے وہ کسی اور کی رپورٹ پیش کررہا ہے، کمشنر کو ذمہ داری لینی چاہئے اور جوابدہ ہونا چاہیئے۔
کمشنر کراچی نے بتایا کہ میں ہر جگہ خود گیا ہوں نگرانی کررہا ہوں ساری کارروائی کی، تجوری ہاؤس کی بھی نگرانی کر رہا ہوں ۔
کمشنر نے مزید بتایا کہ رائل پارک منصوبے کا انہدام کا کام جاری ہے، 20فیصد کام رہ گیا ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ ہل پارک کا کیا ہوا ؟ ،جس پرکمشنر کراچی نے بتایا کہ کچھ مکینوں نے نظرثانی کی درخواست دائر کی ہے۔
متاثرین کے وکیل کا کہنا تھا کہ معاوضہ کے حوالے سے عدالت نے مہلت دی تھی۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ میں نئی جگہ لوں گا تو معلوم ہوگا قانونی ہے یا نہیں؟ میں اتنا بچہ تو نہیں کوئی بھی زمین خرید لوں ؟ ۔
وکیل نے کہا کہ پی ای سی ایچ ایس نے لیز دی تھی انہیں تو کوئی سزا ملے جبکہ کمشنر کراچی کا کہنا تھا عدالتی حکم پر کریک سائڈ مال بھی سیِل کردیا ہے ۔
عدالت نے ہل پارک سے متعلق نظرثانی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کمشنر کراچی کو کارروائی جاری رکھنے کی ہدایت کردی اوررائل پارک کی بحالی کا حکم دے دیا۔
کیا پورے کراچی کو مختیارکاروں پر بانٹ دیا ہے؟چیف جسٹس گلزار احمد
سپریم کورٹ میں زمینوں کی لیز سے متعلق کیس میں چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کیا پورے کراچی کو مختیارکاروں پر بانٹ دیا ہے؟ فیروزآباد کا مختیارکار کون ہے؟ اس نے کتنے کاغذ نکالے ہیں؟ وزیراعلیٰ سندھ کو بلائیں، وہ بتائیں گے فیروزآباد میں مختیارکار کیا کر رہا ہے۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں زمینوں کی لیز سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ مختیارکار کون ہوتا ہے یہ حکومت پاکستان کی لیز کردہ زمینیں ہیں، پورے کراچی کو مختیارکاروں پر بانٹ دیا ہے کیا؟ کراچی تو کیپیٹل رہا ہے کیا ہورہا ہے اس شہر کے ساتھ ؟ ۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ پی ای سی ایچ ایس اور سندھی مسلم بھی مختیارکار آپریٹ کررہا ہے تو پھر تو گئی ساری زمین۔
چیف جسٹس پاکستان نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کسی کو پرواہ نہیں ہے کراچی کی، کیا ہورہا کوئی فکرمند نہیں، وقت آگیا ہے کہ آنکھیں کھولیں، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی والے کس دنیا میں رہ رہے ہیں؟ ۔
عدالت نے استفسار کیا کہ فیروزآباد کا مختیارکار کون ہے؟ اس طرح کے کتنے کاغذ نکالے ہیں اس نے ؟۔
چیف جسٹس نے کمشنر کراچی کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس شہر کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟ آپ کو کراچی کی تاریخ بھی نہیں معلوم کیا تھا کراچی۔
عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل سے کہا کہ وزیراعیٰا سندھ کو بلائیں وہ بتائیں گے فیروزآباد میں مختیار کار کیا کررہا ہے ؟ ۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ کل تک مہلت دے دیں ہم تفصیل پیش کردیں گے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ابھی تو مختیار کار ڈی ایچ اے آنے والا ہے کچھ دیر میں ، فیروز آباد کا مختیارکار ہوسکتا ہے تو ڈی ایچ اے کا بھی نکل آئے گا۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ سندھ ریونیو ایکٹ کے تحت زمینوں کا ریکارڈ مختیار کار کے پاس ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہم نے ساری زندگی جتنی وکالت کی ہے یہ بات کبھی سامنے نہیں آئی، سندھی مسلم سوسائٹی تعلقہ نہیں ہے، آپ قانون کو جانتے ہوے اس کا دفاع کر رہے ہیں، آپ عدالت کی معاونت کے بجائے فراڈ کا دفاع کررہے ہیں، کسی وکیل کو پتہ نہیں کہ یہاں کراچی کے ساتھ کیا ہورہا ہے، کل مختیار کار کی جگہ کوئی اور دفتر کھل جائے گا اور سب کچھ گڑ بڑ گھٹالا ہوجائے گا۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ آپ آجائیں اور اے جی صاحب آپ بیٹھ جائیں، اٹارنی جنرل نے بتایا کئی ادارے یہاں کام کررہے ہیں سوسائٹیز الگ ہیں۔
عدالت نے کہا کہ سوسائٹیز کے پاس سوسائٹیز کا ریکارڈ ہوتا ہے مختیارکار کہاں سے آگیا ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کنٹونمنٹ اور کے ایم سی کے قوانین الگ الگ ہیں، بہتر ہے ایک دفعہ تمام محکموں کے قوانین سامنے آجائیں تو اس کا جائزہ لیا جائے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے مزید کہا کہ سوسائٹیز میں مختیارکار کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔
ایس بی سی اے نے سب سے زیادہ گھپلے کئے ہیں،سپریم کورٹ
کراچی :سپریم کورٹ نے شاہراہ قائدین پرتجاوزات سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے کہ ایس بی سی اے نے سب سے زیادہ گھپلے کئے ہیں، یہ تو کل سپریم کورٹ اور چیف منسٹر ہاؤس بھی الاٹ کردیں گے،ایس بی سی اے چلانے والے اور ہی لوگ ہیں۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں شاہراہ قائدین پر تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
کمشنر کراچی نے بتایا کہ شاہراہ قائدین، شاہراہ فیصل کے سنگم پر نسلہ ٹاور کی انسپکشن ہوگئی ہے۔
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے خود کیوں انکوائری نہیں کی؟ جس پر کمشنر کراچی نے کہا کہ ایس بی سی اے کی رپورٹ کے مطابق عمارت نالے پر نہیں ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ایس بی سی اے نے تو سب سے زیادہ گھپلے کئے ہیں، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا ایک حصہ غیرقانونی ہے وہ گرادیں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایس بی سی اے والے معلوم ہے کون ہیں؟ ان ہی لوگوں نے سب بنایا ہے اور بنوایا ہے، پی ای سی ایچ ایس میں کوئی پلاٹ خالی نہیں تھا یہ کہاں سے آگیا ؟ ۔
ڈی جی ایس بی سی اے نے بتایا کہ روڈ کی ری الائنمنٹ ہوئی تھی جس میں یہ زمین سامنے آئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تو اس کو بیچ دیں گے ؟ کیا کررہے ہیں آپ لوگ ؟ یہ ایس بی سی اے کا کیا دھرا ہے کوئی ٹائٹل دکھا دے، کل سپریم کورٹ اور چیف منسٹر ہاؤس بھی الاٹ کردیں گے، کوئی ٹائٹل دکھا دے ،کیا تماشہ لگایا ہوا ہے آپ لوگوں نے ؟ ۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کتنے منصوبے زیرغور ہیں منظوری کیلئےجس پر ڈی جی ایس بی سی اے نے بتایا کہ ہمارے پاس 319 منصوبوں کی درخواستیں ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ لوگوں سے جو چاہیں الاٹ کرالیں، مولانا صاحب کو سامنے لا کر کھڑا کردیا ہے اصل آدمی تو کوئی اور ہے، کیا نام ہے اس آدمی کا وہی چلا رہا کے ایس بی سی اے، ایس بی سی اے ایسی جگہ ہے جہاں سے پیسہ نکلتا ہے، اسے چلانے والے کوئی اور ہیں اور جو سامنے ہیں وہ نہیں چلا رہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا ریونیو، سب رجسٹرار آفس اور ایس بی سی اے یہ وہ جگہیں ہیں جہاں سب سے زیادہ مال آتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ نسلہ ٹاور غیرقانونی بنا ہوا ہے بلڈر تو غائب ہے، نہیں آتا، بلڈر نے ان لوگوں کو سامنے کھڑا کیا ہوا ہے اور رپورٹ بھی اپنے حق میں بنوالی ہے، 50سال پرانا علاقہ ہے کوئی پلاٹ خالی نہیں ہے یہ پلاٹ نکال دیا گیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کس نے لیز دی وہ بھی ذمہ دار ہے۔
عدالت نے ڈی جی ایس بی سی اے کوحکم دیتے ہوئے کہا کہ ہم پلاٹ کینسل کررہے ہیں ،آپ بلڈنگ گرادیں۔
Comments are closed on this story.