ایسٹرا زینیکا ویکسین: ماہرین نے بلڈ کلاٹنگ کی وجہ تلاش کرلی
چند مریضوں میں بلڈ کلاٹنگ کے جان لیوا واقعات دنیا کے کئی ممالک میں برٹش سویڈش کمپنی ایسٹرا زینیکا کی تیار کردہ کورونا ویکسین کا استعمال روک دینے کی وجہ بنے تھے۔ جرمن ماہرین نے اب بلڈ کلاٹنگ کی وجوہات کا پتا چلا لیا ہے۔
کئی یورپی اور غیر یورپی ممالک میں، جہاں عام لوگوں کو کووڈ انیس کی عالمی وبا کے دوران کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ایسٹرا زینیکا کی ویکسین لگائی گئی تھی، چند مریضوں میں ویکسینیشن کے بعد خون کے بہت چھوٹے چھوٹے لوتھڑے بننے کی وجہ سے ان مریضوں کا انتقال ہو گیا تھا۔
ایسے واقعات کے سامنے آنے کے بعد اس ویکسین کے محفوظ اور مؤثر ہونے سے متعلق ایسے وسیع تر خدشات پیدا ہو گئے تھے، جن کی طبی تحقیقی ماہرین نے فوری طور پر تصدیق نہیں کی تھی، مگر عمومی احتیاط کے باعث کئی ممالک میں اس ویکسین کا استعمال عبوری طور پر روک دیا گیا تھا۔
ایسٹرا زینیکا سے متعلق خدشات پیدا ہونے کے بعد جرمنی کے روبرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ، یورپی میڈیسن ایجنسی اور عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے بھی تصدیق کر دی تھی کہ بہت ہی معمولی تعداد میں ایسی ویکسینیشن کے بعد مریضوں کی اموات کا تعلق اس ویکسین سے کم ہے اور ان مریضوں کی ذاتی میڈیکل ریکارڈ سے زیادہ۔
ان اداروں کی طرف سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ ویکسین جن مریضوں کو لگائی گئی تھی، ان میں شرح اموات انتہائی معمولی تھی، جس کی بنیاد پر سائنسی حوالے سے ایسٹرا زینیکا ویکسین کا استعمال ترک کر دینے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔
٭ بلڈ کلاٹنگ کی وجوہات
کئی ممالک میں ماہرین یہ جاننے کی کوشش میں تھے کہ جن مریضوں کو یہ ویکسین لگائی گئی تھی، ان کے چند ایک کے جسموں میں خون کے بہت چھوٹے چھوٹے لوتھڑے بن جانے یا بلڈ کلاٹنگ کی وجوہات کیا تھیں۔
جرمن شہر گرائفس والڈ کے ایک ٹیچنگ ہسپتال کے محققین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان عوامل کا پتا چلا لیا ہے، جن کی وجہ سے بہت کم شرح سے ہی سہی لیکن ایسٹرا زینیکا ویکسین چند مریضوں مین بلڈ کلاٹنگ کی وجہ بنی۔ ان ماہرین کے مطابق ایسے مریضوں کا 'ٹارگٹڈ‘ علاج ممکن ہے۔
شمالی جرمنی میں گرائفس والڈ ٹیچنگ ہسپتال کے ماہرین نے جرمن نشریاتی ادارے این ڈی آر کو بتایا کہ بہت ہی کم واقعات میں ایسٹرا زینیکا کے استعمال کے بعد متعلقہ افراد کے خون میں جو کلاٹنگ دیکھنے میں آئی، وہ دراصل ایسے مریضوں کے دماغ میں پیدا ہونے والی 'تھرومبوسِس‘ یا انجماد خون کی اپنے عوامل کی بنیاد پر بہت ہی نایاب طبی حالت تھی۔
ان ماہرین کے بقول مریضوں کے دماغ میں اس thrombosis کا بروقت پتا چلا لیا جائے، تو اس کا باقاعدہ ٹارگٹ کر کے علاج ممکن ہے۔ یہ علاج بھی اسی عام طریقے سے کیا جا سکتا ہے، جیسے سالہا سال سے دنیا بھر میں ڈاکٹر دماغ میں انجماد خون کا علاج کرتے آئے ہیں۔
٭ علامات اور ان کی تشخیص کے بعد ہی علاج ممکن
ایسٹرا زینیکا اور چند مریضوں میں بلڈ کلاٹنگ کے واقعات پر جرمنی میں ان ماہرین نے یہ تحقیق صحت عامہ کے شعبے کے ریگولیٹری ادارے پاؤل ایہرلِش انسٹیٹیوٹ اور آسٹریا کے ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر مکمل کی، جہاں ایک نرس کا یہی ویکسین لگائے جانے کے چند روز بعد دماغ میں انجماد خون سے انتقال ہو گیا تھا۔
ریسرچرز کے مطابق دماغ میں ایسی بلڈ کلاٹنگ کا علاج کیا تو جا سکتا ہے، مگر صرف اسی وقت جب کسی انسان میں ایسا دماغی انجماد خون پیدا ہو چکا ہو اور اس کی تشخیص بھی ہو گئی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس طریقہ علاج کو 'برین تھرومبوسِس‘ پیدا ہونے سے پہلے حفاظتی یا احتیاطی روک تھام کے عمل کے طور پر قبل از وقت استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
شمالی جرمن ماہرین نے آسٹریا کے ڈاکٹروں کے تعاون سے دماغ میں اس بلڈ کلاٹنگ کی وجوہات کے تعین سے متعلق یہ معلومات بہت سے یورپی ہسپتالوں تک پہنچا دی ہیں۔
٭ ویکسینیشن کے بعد بلڈ کلاٹنگ کی ظاہری علامات کیا؟
جرمنی میں امراضِ دوران خون کی ملکی تنظیم کے ماہرین کے مطابق دماغ میں 'تھرومبوسِس‘ کی عام علامات یہ ہیں کہ مریضوں کو سر درد اور غنودگی کا سامنا رہتا ہے اور بصارت بھی جزوی طور پر متاثر ہوتی ہے۔
اس تنظیم کے مطابق کسی بھی انسان کو اگر ویکسینیشن کے بعد تین دن سے زیادہ عرصے تک ان علامات کا سامنا رہے، تو اسے مزید مشورے اور تفصیلی طبی معائنے کے لیے اپنے ڈاکٹر یا ہسپتال کا رخ کرنا چاہیے۔
جرمنی سمیت کئی یورپی اور غیر یورپی ممالک میں حکومتیں ایسٹرا زینیکا ویکسین کا استعمال معطل کر دینے کے اپنے فیصلے واپس لے چکی ہیں اور یہ ویکسین بھی اب عام شہریوں کو لگائی جا رہی ہے۔
Comments are closed on this story.