'سپریم کورٹ کسی جج کو کوئی مقدمہ سننے سے نہیں روک سکتی'
سپریم کورٹ کےجج جسٹس فائزعیسیٰ نےاپنےاختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کسی جج کو کوئی مقدمہ سننے سے نہیں روک سکتی۔ وزیراعظم کی جانب سے ترقیاتی فنڈز سے متعلق کیس میں جسٹس فائز عیسیٰ نے اختلافی نوٹ لکھ دیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےکیس کے فیصلے میں 20 اعتراضات اٹھا دتےہوئے موقف اپنایا کہ چیف جسٹس نے ٹھوس وجوہات کے بغیر جج پر جانبداری کا الزام لگایا۔آئین کسی جج کو دوسرے جج کے دل میں جھانک کر جانبداری کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں دیتا۔مقدمہ کے فیصلے سے چیف جسٹس کی ساکھ پر سوالات اٹھ رہے ہیں، سپریم کورٹ کسی جج کو کوئی مقدمہ سسنے سے نہیں روک سکتی۔
اختلافی نوٹ میں مزید کہا وزیراعظم کا بیان آئین کے خلاف اور مقدمے کا اختتام حیران کن تھا۔حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ووٹوں کی خریدو فروخت کاکہہ رہی ہیں۔سینیٹ الیکشن سے قبل وزیراعظم نے اراکین کو ترقیاتی فنڈز دینے کا کہا۔الیکشن کمیشن نے بھی ترقیاتی فنڈز کے اعلان کا نوٹس نہیں لیا۔وزیراعظم کے صرف آئینی اقدامات کو قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ اٹارنی جنرل نے تحقیقات کے بجائے جج کو شکایت کنندہ بنانے کی کوشش کی، تمام ججز کے دستخط ہونے تک حکمنامہ قانونی نہیں ہوسکتا۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کہتےہیں وزیراعظم نہیں بلکہ صدارتی ریفرنس کیخلاف درخواست دائرکی تھی۔دیگر13افراد کیساتھ وزیراعظم کوبھی فریق بنایاگیا تھا، اگر وزیراعظم کو فریق بنانا وجہ تھی تو فریق بنچ کے تین ججز بھی تھے۔سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ تین ججز بھی بنچ میں شامل تھے۔ تحقیقات کے بجائے ایک جج کو آئینی ذمہ داری ادا کرنے سے روکا گیا، پانچ رکنی بنچ کی تشکیل اور جسٹس مقبول باقر کو شامل نہ کرنےپراعتراض کیا تھا۔چیف جسٹس نے بنچ کی تشکیل پر اعتراض کا تحریری یا زبانی جواب نہیں دیا۔ریکارڈ کے مطابق چیف جسٹس کے زبانی حکم پر 5 رکنی لارجر بنچ بنایا گیا۔ 10فروری کے حکمنامے میں کسی جج کو سماعت نہ کرنے کی کوئی ہدایت نہیں تھی۔اٹارنی جنرل نے بھی بنچ میں شامل کسی جج پر اعتراض نہیں کیا تھا۔ واٹس ایپ پر ملنے والی دستاویزات کھلی عدالت میں ججز اور حکومتی وکلا کو دیں،دستاویزات کی تصدیق نہ ہوتی تو بات وہیں ختم ہو سکتی تھی۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا اختلافی نوٹ میں کہنا ہے کہ وزیراعظم کیخلاف مقدمہ نہ سننے کا مطلب ہے جج صرف پرائیویٹ کیسز سن سکتا ہے۔عمران خان کوذاتی طورنہیں جانتا توجانبدار کیسے ہوسکتا ہوں، جانبداری کا الزام عمران خان خود لگا سکتے تھے۔اٹارنی جنرل ان کے ذاتی وکیل نہیں،تمام ججز کے دستخط نہ ہونے پر مقدمہ ختم نہیں ہوا بلکہ زیرالتوا ہے، دعا ہے عدلیہ آئین کی ہر خلاف ورزی اور اختیارات کے غلط استعمال کیخلاف کھڑی ہو۔
Comments are closed on this story.