انسان کے پیدا کردہ شور سے آبی حیات بھی محفوظ نہیں رہیں
بے ہنگم شور ہر ایک کو ناگوار گزرتا ہے کہ انسان کا دل چاہتا ہے کہ وہ یا تو اسے بند کر دے یا اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لے، یا پھر کہیں بھاگ جائے۔ شور صرف انسان کو ہی نہیں، حیات کی اکثر اقسام کو متاثر کرتا ہے، اب تو اس شور سے مچھلیاں اور آبی حیات پر بھی منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔
اب آپ پوچھیں گے کہ زیر آب شور کہاں سے آیا؟ تو اس کا جواب ہے کہ انسانی سرگرمیوں سے۔ انسان سمندر میں تیل، گیس اور دیگر خزانوں کی تلاش میں بڑی بڑی مشینیں استعمال کر رہا ہے، جو بڑی پیمانے پر شور پیدا کرتی ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ صنعتی شور سطح سمندر سے کہیں نیچے آبی حیات کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ جس سے سمندر میں موجود جانداروں کی خوراک تلاش کرنے، حملہ آوروں سے بچنے اور افزائش کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔
شور مچاتے بحری جہاز، تیل تلاش نکالنے کے لیے ہتھوڑے برساتی ڈرلز اور تیل کی تلاش کے لیے زوردار دھماکوں سے انسان نے زیرآب صوتی منظر نامے میں بری طرح خلل اندازی کی ہے۔ بعض کیسز میں ویل مچھلیاں، ڈالفنز اور دیگر میملز، جو ایک سے دوسری جگہ جانے کے لیے آواز پر انحصار کرتے ہیں، انسان کے پیدا کردہ شور سے ان کی سماعت یا ہوش و حواس مفلوج ہو جاتے ہیں۔
یہ بات سائنس دانوں نے ایک مطالعاتی جائزے میں بتائی ہے جو 'سائنس' نامی جریدے میں جمعرات اور جمعے کے ایڈیشنز میں شائع ہوا ہے۔ اس ریسرچ رپورٹ میں پانچ سو پیپرز کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مرکزی مصنف اور سعودی عرب کی کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سمندری امور کے سائنس دان کارلوس ڈارتے کے مطابق گلیشیئرز کا پگھل کر زور دار آواز سے سمندر میں گرنا، سطح آپ پر موسلادھار بارش کے شور کی آواز بھی سمندر کی گہرائیوں تک سنی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر ڈارتے نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ یہ ایک پرانا مسئلہ ہے جو جانوروں کو انفرادی سطح سے لے کر وسیع سطح تک کمزور بناتا ہے۔ ان کے بقول یہ بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔
مطالعاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سائنس دانوں اور پالیسی سازوں کو شور اور ان کے اثرات پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے، خاص طور پر سمندری کچھوؤں اور دیگر رینگنے والے جانداروں، سمندری پرندوں، دریائی بچھڑوں، دریائی گھوڑں اور پودے کھانے والے دیگر جانداروں پر۔
محققین کی بین الاقوامی ٹیم نے سمندر میں شور کی پیمائش کرنے اور اس میں کمی لانے کے لیے عالمی سطح پر ریگولیٹری فریم ورک تشکیل دینے پر زور دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تغیر بھی زیر سمندر صوتی منظر پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ کیونکہ سمندروں کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور اس سے وہاں رہنے والے جانوروں کی آوازوں اور شور میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
اس صورت حال کے پیش نظر اقوام متحدہ حکومتوں پر زور دے رہا ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں 30 فی صد زمین اور سمندر کو انسانی سرگرمیوں سے محفوظ علاقہ قرار دیں۔
یونیورسٹی آف واشنگٹن میں اپلائیڈ فزکس لیبارٹری سے وابستہ سمندری امور کی ایک ماہر کیٹ سٹیفورڈ نے رپورٹ کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ رپورٹ یہ واضح کرتی ہے کہ انسان کے پیدا کردہ شور میں کمی لانے کے لیے ہمیں حکومتوں کے درمیان عالمی سطح پر تعاون کی ضرورت ہے۔
Comments are closed on this story.