میانمار: فوج نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا، آنگ سان سوچی حراست میں
میانمار کی فوج کی جانب سے ملٹری ٹی وی پر پیر کی صبح اعلان کیا گیا کہ فوج نے ایک سال کے لیے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا ہے جس کے بعد اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کو حراست میں لے لیا گیا۔
میانمار میں آنگ سان سوچی سمیت حکمران جماعت کے اعلیٰ رہنماؤں کو حراست میں لے کر فوج کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کی کئی ممالک کی جانب سے مذمت کی گئی ہے۔
ایسا نومبر میں ہونے والے انتخابات کے نتائج پر سول حکومت اور فوج کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد ہوا ہے۔ قبل ازیں اس ہفتے فوج نے کہا تھا کہ نومبر کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی شکایات نظر انداز کیے جانے کی صورت میں حکومت کا تختہ الٹنے کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
میانمار کا الیکشن کمیشن ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے کہ آنگ سان سوچی کی حکمران جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی بڑے پیمانے پر کامیابی میں دھاندلی نے اہم کردار ادا کیا۔
فوج کی حمایت یافتہ سیاسی جماعتوں یونین سولیڈیرٹی اور ڈوپلمنٹ پارٹی نے صرف 33 نشستیں جیتیں۔ این ایل ڈی کے ترجمان میونیونٹ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ صدر ون مائنٹ اوردوسرے رہنماؤں کو علی الصبح ’حراست‘ میں لے لیا گیا۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ’میں اپنے لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ جلد بازی کا مظاہرہ مت کریں اور میں چاہتا ہوں کہ وہ قانون کے مطابق عمل کریں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ توقع ہے کہ انہیں بھی حراست میں لے لیا جائے گا۔
این ایل ڈی کے ایک اور عہدے دار نے ردعمل کے خطرے کے پیش نظر اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ جن لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے ان میں پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن ہان تھرمائنٹ شامل ہیں۔
میانمار کے سرکاری ٹیلی ویژن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک پر بتایا ہے کہ ادارہ ’مواصلاتی مسائل کی وجہ سے‘ نشریات نہیں دکھا سکتا کیونکہ دارالحکومت کی فون لائنز کام نہیں کر رہیں۔
ادھر امریکہ نے میانمار کی فوج پر زور دیا ہے کہ ملک کی حقیقی حکمران آن سان سوچی سمیت حراست میں لیے گئے دیگر حکام کو رہا کر دیا جائے۔
امریکہ نے خبر دار کیا ہے کہ وہ ملک کے سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری پر ردعمل ظاہر کرے گا۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جین ساکی نے بیان میں کہا ہے کہ ’امریکہ حالیہ انتخابی نتائج میں تبدیلی یا میانمار میں جمہوری تبدیلی کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی مخالفت کرتا ہے اور اگر اٹھائے گئے اقدامات واپس نہ لیے گئے تو ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔‘
1962 میں حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد فوج میانمار میں تقریباً 50 برس تک حکمران رہی ہے۔ 2010 میں ہونے والے عام انتخابات کے ساتھ جمہوریت کی طرف تبدیلی کا اغاز ہوا۔
1989 اور 2010 کے درمیان سوچی کو حراست میں لے کر زیادہ وقت گھر میں نظربند رکھا گیا تھا۔ انہیں 1991 میں ان کی ’جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے تشدد سے پاک مہم‘ پر امن کا نوبیل انعام بھی دیا جا چکا ہے۔
ریاست رخائن میں حکومت کے روہنگیا اقلیت کے خلاف بہیمانہ کریک ڈاؤن کے بعد عالمی سطح پر سوچی کی ساکھ کو نقصان پہنچا لیکن وہ ملک کی بے حد مقبول رہنما رہیں۔
گذشتہ نومبر میں ہونے والے الیکشن میں این ایل ڈی نے فوج نواز جماعت کو بری طرح شکست دے کر بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کی تھی۔
قبل ازیں اس ہفتے میں ہونے والے تبصروں کے بعد حکومت کا تختہ الٹے جانے کا خوف پیدا ہو گیا تھا جس کے بعد میانمار کی فوج نے ہفتے کو کہا تھا کہ وہ آئین کا تحفظ اور اس کی پاسداری کرے اور قانون پر عمل کیا جائے گا۔
میانمار کے الیکشن کمیشن نے فوج کی جانب سے انتخابی دھاندلی کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی بڑی غلطیاں نہیں ہوئی جن کی وجہ سے انتخابات کی ساکھ مجروح ہو جائے۔ آئین کے تحت پارلیمنٹ میں فوج کے لیے 25 فیصد نشستیں اور سوچی انتظامیہ میں تین اہم وزارتیں مخصوص ہیں۔
دسمبر میں سوچی نے عالمی عدالت انصاف میں نسل کشی کے الزام کے خلاف ملک کا دفاع کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ملک میں صورت حال ’پیچیدہ‘ ہے۔
Comments are closed on this story.