مستعفی ہونے کا فائدہ، ندیم افضل چن کو ہزاروں فالوورز مل گئے
اقتدار کی راہداریوں سے جزوی علیحدگی کا مبینہ اعلان کرنے کے بعد ہزاروں نئے فالوورز پانے والے ندیم افضل چن نے اپنے استعفی کی تصدیق سے متعلق تو تاحال کچھ نہیں کہا البتہ سوشل میڈیا انہیں اتنا مجبور کرنے میں ضرور کامیاب رہا کہ وہ خود سے منسوب جعلی اکاؤنٹس کی تردید کے لیے سامنے آ گئے۔
وزیراعظم کے ترجمان کے عہدے سے مستعفی ہونے کی خبر سامنے آنے کے بعد کئی گھنٹوں سے بظاہر تمام رابطوں سے دور رہنے والے ندیم افضل چن نے اس پیشرفت کے بعد چند گھنٹوں میں پانچ ہزار سے زائد ٹوئٹر فالوورز پائے ہیں۔ جمعرات کی صبح تک ان کے ٹوئٹر فالوورز کی تعداد ایک لاکھ 21 ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔
پاکستان میں ٹیلی ویژن سکرینز اور اخبارات کے صفحوں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا ٹائم لائنز پر بھی ندیم افضل چن گزشتہ چند گھنٹوں سے نمایاں موضوع رہے ہیں۔ ان کے استعفیٰ سے متعلق ابتدائی اطلاع سامنے آنے کے بعد خبروں کی دنیا سے تعلق رکھنے والے ندیم افضل کو ڈھونڈنے رہے لیکن وہ کسی کو دستیاب نہ ہو سکے۔
اسی دوران ٹوئٹر پر ان کے نام سے متعدد اکاؤنٹس بنے، ان سے مختلف سرگرمیاں کی جاتی رہیں۔ کچھ اکاؤنٹس ایسے بھی تھے جنہوں نے ان کے نام پر ہزاروں فالوورز حاصل کر لیے۔ بات آگے بڑھی تو ندیم افضل چن کو خود یہ اعلان کرنا پڑا کہ ان کا اصل اکاؤنٹ کون سا ہے۔
وزیراعظم کے ترجمان اور معاون خصوصی کی حیثیت سے ندیم افضل چن کے استعفیٰ کی خبر سامنے آئی تو سیاسی اتار چڑھاؤ پر نظر رکھنے والوں نے اس اطلاع کو خاصا اہم جان کر اس کا اظہار بھی کیا۔
سوشل ٹائم لائنز پر بات آگے بڑھی تو کہیں ان کے ’مختاریے‘ کا ذکر ہوا، کسی نے ان کی آئندہ سیاسی منزل کا پوچھا تو کوئی اندازے باندھتا رہا کہ وہ فوری طور پر کہاں جا سکتے ہیں اور اگر ایسا ابھی نہیں ہو رہا تو کب ہوگا۔
خواجہ مشرف نامی صارف نے ندیم افضل چن کی سابق پارٹی کا ذکر کیا تو خواہش ظاہر کی کہ وہ گھر واپس آ جائیں۔
تحریک انصاف کے حامی صارفین انہیں گھر کی بات گھر میں رکھنے کا مشورہ دیا تو خاصے اس بات کے خواہاں دکھائی دیے کہ وہ کہیں نہ جائیں بلکہ گھر میں رہ کر ہی اختلاف کریں۔
کچھ صارفین نے سیاسی بساط پر چلی جانے والی روایتی چالوں کا ذکر کیا تو انہیں متنبہ کیا کہ استعفی کے بعد اب ہوشیار رہیں۔
گزشتہ چند روز کے دوران یہ تیسرا موقع ہے کہ ندیم افضل چن یا ان کی کوئی سوشل میڈیا سرگرمی زیادہ نمایاں ہوئی ہے۔
چند روز قبل انہوں نے مچھ، بلوچستان میں قتل ہونے والے کان کنوں کی میتوں سمیت دھرنا دیتے لواحقین کی صورت حال پر شرمندگی کا اظہار کیا تھا۔ ان کے اس عمل کو اس وقت کے حکومتی موقف سے ہٹ کر کی گئی بات کے طور پر دیکھا گیا تھا۔
دوسری مرتبہ وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی ابلاغ شہباز گل کے ساتھ ٹوئٹر ٹائم لائن پر ان کی بحث ہوئی تو بہت سے حلقوں نے اسے ’لفظوں کی جھڑپ‘ سے تعبیر کیا جب کہ کچھ اسے وزیراعظم کے دو ترجمانوں کے زاویہ نظر کا فرق کہتے رہے۔
2001 میں تحصیل ملکوال کے ناظم کے طور پر اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کرنے والے ندیم افضل چن 2008 میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر سرگودھا سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ 2013 کے الیکشن میں بھی وہ پی پی پی کے ٹکٹ پر انتخابی میدان میں اترے لیکن کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ انہوں نے 2018 کے انتخابات سے قبل پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی، گزشتہ عام انتخابات میں وہ اگر چہ اپنی نشست تو نہیں جیت سکے تھے لیکن بعد میں انہیں وزیراعظم کا ترجمان مقرر کر دیا گیا تھا۔
Comments are closed on this story.