سپریم کورٹ: سینیٹ انتخابات پر صدارتی ریفرنس پر سماعت
سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔
سماعت میں جسٹس اعجاز الاحسن بولے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کر کے ووٹ ڈالنا بدیانتی ہے ، جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا اراکین کواپنی منشا سے ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے حکومتی ریفرنس کا محور اَخلاقیات پرمبنی مگرمعاملہ سیاسی ہے۔
اٹارنی جنرل بولے سیاست دانوں کی نااہلی سمیت گیارہ مثالیں دے سکتا ہوں جہاں عدالت نے سیاسی معاملات پرفیصلے صادرکیے۔
چیف جسٹس گلزاراحمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ سینٹ اورقومی اسمبلی کے انتخابات آئین کے تحت نہیں ہوتے اسپیکراورڈپٹی اسپیکرکا انتخاب بھی الیکشن کمیشن نہیں کرواتا،
جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ آرٹیکل 226 واضع ہے،وزیراعظم اوروزیراعلی کے علاوہ تمام الیکشن خفیہ ووٹنگ سے ہونگے۔
اٹارنی جنرل بولے کہ آرٹیکل 226 کا اطلاق ہرالیکشن پرنہیں ہوتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 226 کا اطلاق ہوتو مخصوص نشستوں کے انتخابات ہوہی نہیں سکتے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 53 اور60 میں ذکرنہیں کہ انتخابات خفیہ ہونگے یا اوپن بلیٹ سے، کوئی رکن صوبائی اسمبلی پارٹی کیخلاف ووٹ دینا چاہتا ہے توسامنے آکردے ،
اٹارنی جنرل نے کہاکہ عام شہری کا ووٹ آزاد جبکہ ایم پی اے کا سینیٹرکوووٹ آزاد نہیں ہوتا اس لیے بیلٹنگ خفیہ نہیں ہوسکتی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرکے خفیہ ووٹ کے ذریعے کسی اورسینیٹرکوووٹ ڈالنا بدیانتی ہے۔ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والے ایم پی اے میں اخلاقی جرات ہونی چاہیے جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ تواخلاقی بات ہے قانونی نہیں ایم پی اے کا اپنی مرضی سے ووٹ دینا اسکا حق ہے۔
اٹارنی جنرل نے دوہری شہریت اوراراکین اسمبلی کے اثاثوں کیس کے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ حکومت ووٹوں کی خریدوفروخت روکنے اور شفافیت کے لیے سپریم کورٹ آئی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ اٹارنی جنرل کے مطابق عدالت صرف آرٹیکل 226 کی تشریح کرے؟ دلائل جاری تھے کہ عدالت نے کیس کی سماعت ایک روز کیلئے ملتوی کردی۔
Comments are closed on this story.