شمالی کوریا نے انتہائی خطرناک ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کا عندیہ دے دیا
نو منتخب امریکی صدر جوبائیڈن کے صدارتی کرسی پر بیٹھنے سے قبل شمالی کوریا نے اپنی تیاری کرنا شروع کر دی ہے۔ شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان نے ہتھیاروں کی ایک لمبی فہرست کے حصول کی خواہش ظاہر کردی ہے۔ ان ہتھیاروں کی فہرست میں طویل فاصلے پر مار کرنے والے میزائل، انتہائی بڑے وارہیڈ، جاسوس سیٹلائٹس اور ایک جوہری آبدوز شامل ہے۔
گذشتہ پانچ برس کے دوران شمالی کوریا میں منعقد ہونے والے بڑے سیاسی اجتماعات میں سے ایک میں ان عسکری منصوبوں کا اعلان کیا گیا اور یہ منصوبے بظاہر خطرے کا باعث لگتے ہیں اور حقیقت میں ہیں بھی۔
تاہم یہ ایک چیلنج بھی ہے اور اس پیغام کی ٹائمنگ انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ امریکہ کے نومنتخب صدر جو بائیڈن 20 جنوری کو صدارت کا حلف اٹھا لیں گے۔ اگر نئی امریکی انتظامیہ چاہتی ہے کہ کم جونگ ان کی جوہری طاقت بننے کی خواہش پوری نہ ہو تو شاید ان کی باتوں پر دھیان دینے کا یہی وقت ہے۔
'کم جونگ ان اینڈ دی بومب' کے مصنف انکت پانڈیا کہتے ہیں کہ 'کم کی جانب سے کیے جانے والے اعلانات بغیر کسی شک کے آنے والی امریکی انتظامیہ کے لیے اشارہ ہیں کہ جلد از جلد کارروائی نہ کرنے کی صورت میں شمالی کوریا اپنی صلاحیتوں کو اتنا بہتر کر سکتا ہے کہ یہ امریکہ اور جنوبی کوریا دونوں ہی کے لیے تباہ کن ثابت ہو گا۔'
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے چار سالہ دور کے دوران کم جونگ سے تین ملاقاتیں کی تھیں تاہم ان کے باوجود دونوں ممالک شمالی کوریا کا جوہری ہتھیاروں کا پروگرام روکنے یا امریکہ اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے لگائی گئی کڑی معاشی پابندیاں ختم کرنے کے حوالے سے معاہدہ کرنے میں ناکام رہے۔
کم جونگ نے ورکرز پارٹی کانگریس کے ہزاروں اراکین سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کو شمالی کوریا کا 'سب سے بڑا دشمن' قرار دیا تاہم انہیں یہ بھی کہا کہ وہ 'مفاہمت کو فی الحال خارج ازلامکان' قرار نہیں دیتے۔
سینٹر فار اے نیو امیریکن سکیورٹی سے منسلک ڈویون کم کا کہنا ہے کہ امریکہ کو پہل بھی کرنا ہو گی اور کسی بھی معاہدے کے لیے کچھ قیمت بھی ادا کرنی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ 'کم جونگ ان چاہیں گے کہ امریکہ جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں ختم کر دے، شمالی کوریا پر لگائی گئی معاشی پابندیاں ہٹا دے اور بات چیت سے قبل ان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے تنقید کرنے سے گریز کرے۔ تاہم واشنگٹن یہ کسی شرط کے بغیر نہیں کرے گا۔'
اگر بات چیت کا دوبارہ آغاز بھی کر دیا جاتا ہے تو کِم کسی بھی معاہدے کے عوض بڑے فائدے حاصل کرنا چاہیں گے کیونکہ وہ ہتھیاروں کی تخفیف سے متعلق سرد جنگ کی طرز کے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں جس میں دونوں اطراف سے ایک ہی نوعیت کے اور ایک ہی موقع پر اقدامات اٹھائے جائیں۔ تاہم یہ بات غیر منطقی ہے کیونکہ امریکہ اور شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔'
Comments are closed on this story.