خونی کھیل بند ہونا چاہیئے، کیا یہ ہے ریاست مدینہ؟
ہزارہ برادری پر ایک بار پھر قیامت ٹوٹ پڑی، بلوچستان کے ضلع مچھ میں کوئلہ فیلڈ میں بزدل دہشتگردوں نے گھس کر معصوم بے گناہ کان کنوں کو بے دردی، بے رحمی اور جانوروں کی طرح ذبح کردیا۔ شہید ورثاء کے لواحقین گزشتہ پانچ دنوں سے کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر میتوں کے ہمراہ موجود ہیں، اس افسوسناک واقعے کے بعد ملک بھر میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ کراچی سمیت ملک بھر کی اہم شاہراہوں پر احتجاجی دھرنے دیے جارہے ہیں ملک کے سب بڑے شہر کراچی میں زندگی مفلوج ہوگئی ہے۔ راستے بند ہونے کے باعث سیکڑوں افراد سڑکوں پر رُلتے دکھائی دے رہے ہیں مگر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کے اس درد ناک واقعے کے 2 دن بعد وفاقی وزیر شیخ رشید مظاہرین کے پاس گئے اور امداد کا اعلان کرکے سمجھے کہ شاید لواحقین اپنے پیاروں کے خون کا سودا کرلیں گے اور امدادی رقم لے کر دھرنا ختم کردیں گے تاہم احتجاجی دھرنے میں بیٹھے مظاہرین نے شیخ رشید کی جانب سے اعلان کردہ امدادی رقم لینے اور یقین دہانیوں کو ٹھکرا دیا۔ گزشتہ پانچ دنوں سے دھرنا دیے بیٹھے لواحقین کا مطالبہ ایک ہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان دھرنے میں آئیں اور یقین دہانی کرائیں کے آئندہ اس قسم کے واقعات نہیں ہونگے مگر بے شرمی اور افسوس کی بات ہے کہ ریاست مدینہ کے دعوے دار عمران خان 5 دن بعد بھی لواحقین کے پاس نہیں گئے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ عمران خان کو مظاہرین کے مطالبے سے پہلے ہی لواحقین کے درمیان موجود ہوتے اور ان کے دکھ اور درد میں شریک ہوتے مگر ایسا لگتا ہے کہ عمران خان ان لوگوں کے پاس جانے کو اپنی شان میں کمی سمجھتے ہیں جو سخت سردی میں سڑکوں پر بیٹھے ہیں اور اپنے وزیر اعظم کی آمد کے منتظر ہیں۔
خان صاحب ماضی میں اس قسم کے واقعات پر فوری متاثرہ جگہ پر پہنچ کر حکمرانوں کو برا بھلا کہتے تھے اور ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے تھے مگر کہتے ہیں ناں کہ مکافاتِ عمل ہے جیسی کرنی ویسی بھرنی۔۔۔ آج عمران خان وزیراعظم ہیں اور پوری قوم ان پر تنقید کے نشتر برسا رہی ہے اور خان کو ان کے ماضی کے بیانات یاد دلا رہی ہے۔
عمران خان صاحب آپ ریاست مدینہ کی بات کی بات کرتے ہیں۔۔۔ ریاست مدینہ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہہ کہتے تھے کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو عمر اس کا ذمہ دار ہے مگر آج عمران خان جس ریاست مدینہ کی بات کررہے ہیں وہاں مظلوم انصاف کی بھیک مانگ رہا ہے۔ لواحقین پیاروں کی لاشیں سڑکوں پر رکھ کر قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں اور عمران خان وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھ کر ٹویٹ کے ذریعے واقعے کی مذمت کرتے ہیں۔ 5 دن گزر جانے کے بعد بھی کہتے ہیں کہ جلد لواحقین کے پاس جاؤں گا۔ ریاست مدینہ میں حکمران اس قدر بے حس نہیں ہوتے تھے مگر خان صاحب آپ نے تو ںے حسی کی انتہا کردی ہے۔
دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں اتنا بڑا سانحہ رونما ہوجائے اور حاکم وقت متاثرہ جگہ کا دورہ نہ کرے اور لواحقین کے غم میں شریک نہ ہو۔ نیوزی لینڈ میں جب مسلمانوں کی مسجد پر حملہ ہوا تو وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن فوری طور پر متاثرہ جگہ پر پہنچیں اور لواحقین سے تعزیت کی جبکہ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ وہ وزیراعظم مسلمان نہیں تھی اس کے باوجود وہ ملک میں رہنے والے مسلمانوں کے غم میں شریک ہوئیں اور صرف وزیراعظم ہی نہیں بلکہ وہاں کی مقامی لوگوں نے بھی بھرپور انداز میں دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کی اور مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کیا، جس سے انہوں نے متحد قوم ہونے کا ثبوت دیا۔
دوسری جانب ریاست مدینہ کے دعوے دار وزیراعظم عمران خان ہیں جو کہتے ہیں کہ "ہماری حکومت میں انصاف ہوگا، مجرمان کو کٹہرے میں لایا جائے گا"۔ مگر خان کے سب وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی جھوٹا ثابت ہوا سانحہ ساہیوال جہاں بچوں کے سامنے ماں باپ کو قتل کردیا جاتا ہے مگر اس کے مجرمان آج آزاد گھوم رہے ہیں اسلام آباد میں ریاست کے پاؤں کے نیچے ایک بے گناہ نوجوان لڑکے کو پولیس اہلکار بے دردی سے قتل کر دیتے ہیں تو کبھی مچھ میں معصوم کان کنوں کو شہید کرکے مجرمان خاموشی سے فرار ہوجاتے ہیں اور پھر لواحقین انصاف کیلئے تحریک انصاف کی حکومت سے بھیک مانگتے ہیں۔ انصاف تو دور کی بات ہے 5 دن گزرنے کے باوجود وزیراعظم تو لواحقین سے تعزیت اور ان کے غم میں شریک ہونے کیلئے نہیں آئے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہزارہ برادری پچھلے کئی برسوں سے دہشتگردی کے خلاف مقابلہ کرتی آرہی ہے بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ پوری پاکستانی قوم نے دہشتگردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی ہے۔ ہمارے فوجی جوانوں اور مختلف واقعات میں شہید ہونے والے شہداء کی لازوال قربانیوں کی وجہ سے ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے لگی تھی۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد آپریشن رد الفساد اور آپریشن ضرب عضب کے ذریعے ملک میں دہشگردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کیا گیا، ملک سے فسادیوں کا خاتمہ کیا گیا مگر آج نئے پاکستان میں ایک بار پھر دہشتگردی سر اٹھاتی اور اپنی جڑیں مضبوط کرتی دکھائی دے رہی ہے۔
حکومتوں کی جانب سے یقین دہانیاں کروائی جاتی ہے مگر پھر کچھ دنوں بعد کوئی اور بڑا سانحہ ہوجاتا ہے۔ کب تک بے گناہ لوگ قتل کیے جاتے رہیں گے؟ کب تک حکمران خاموش بیٹھیں گے؟ اب یہ خونی کھیل بند ہونا چاہیئے سانحہ مچھ اور ایسے دیگر تمام سانحات کی مکمل تحقیقات کی جائیں اور مجرمان کو سخت سزائیں دی جائیں تاکہ آئندہ کسی کی اتنی جرات نہ ہو کہ معصوم شہریوں کو نشانہ بناسکے۔
تحریر: کاوش میمن
وفاقی اردو یونیورسٹی میں ابلاغِ عامہ کاطالب علم ہوں، سیاسی معاملات پرگہری نظراورصحافت میں کیریئربنانےکاشوق ہے،ابتدائی بچپن سے ہی الیکٹرانک میڈیامیں بھرپوردلچسپی رکھتاہوں۔بلاگرسےای میل ایڈریس [email protected] یاٹوئٹر اکاؤنٹ Kawish_Official@ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
درج بالا تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، آج نیوز اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Comments are closed on this story.