Aaj News

جمعہ, نومبر 15, 2024  
12 Jumada Al-Awwal 1446  

ایرانی حکومت کو اسرائیلی بندرگاہ تباہ کرنے کی تجویز

ایران کے سخت گیر نواز اخبار کیہان نے حکومت کو تجویز پیش کی ہے کہ...
شائع 30 نومبر 2020 09:43am

ایران کے سخت گیر نواز اخبار کیہان نے حکومت کو تجویز پیش کی ہے کہ اگر اسرائیل نے جوہری سائنس دان محسن فخری زادہ کو قتل کیا ہے تو اس کی حیفا میں واقع بندرگاہ پر حملہ کردیا جائے۔

کیہان سخت گیروں کے نقطہ نظر کو اجاگر کرتا رہتا ہے۔ اس میں اتوار کو شائع شدہ ایک مضمون میں ایران کو اسرائیل کے خلاف جارحانہ ردعمل کا مشورہ دیا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے ساحلی شہر حیفا میں واقع تنصیبات کو نہ صرف تباہ کردیا جائے بلکہ اس کو بھاری جانی نقصان بھی پہنچایا جائے۔

کیہان میں شائع شدہ اس تحریر کے لکھاری ایرانی تجزیہ کار سعداللہ زرعی ہیں ۔انہوں نے یہ دلیل پیش کی ہے کہ ماضی میں اسرائیل کے شام میں پاسداران انقلاب کی فورسز پر حملوں کے ردعمل میں ایران نے کوئی مسکت جواب نہیں دیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے جارحیت کا راستہ ترک نہیں کیا ہے۔

زرعی لکھتے ہیں کہ ’’حیفا پر حملہ کیا جاتا ہے اور اس میں بڑی تعداد میں لوگوں کو ہلاک کردیا جاتا ہے تو اس کا نتیجہ یقینی طور پر سدِّ جارحیت ہوگا کیونکہ امریکا، اسرائیلی نظام اور ان کے ایجنٹ کسی بھی طرح جنگ اور فوجی محاذ آرائی کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ’’بحر متوسط کے کنارے واقع حیفا کی بندرگاہ پر حملہ عراق میں امریکی فوجیوں پر ایران کے بیلسٹک میزائلوں سے حملے سے شدید تر ہونا چاہیے۔‘‘ اس سال جنوری کے اوائل میں بغداد کے بین الاقوامی ہوائی ڈے کے نزدیک امریکا کے ڈرون حملے میں القدس فورس کے سابق کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی ہلاک ہوگئے تھے۔ اس کے ردعمل میں ایران نے عراق میں امریکی فوج کے اڈے پر میزائل حملہ کیا تھا۔

روزنامہ کیہان کی ایران میں اشاعت بہت تھوڑی ہے لیکن اس کی اہمیت یوں ہے کہ اس کے مدیراعلیٰ حسین شریعت مداری کا تقرر رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے خود کیا تھا۔ وہ ماضی میں رہبرِ اعلیٰ کے مشیر بھی رہ چکے ہیں۔

٭ سخت ردعمل

جوہری سائنس دان محسن فخری زادہ کے جمعہ کو پُراسرار قتل کے بعد سے ایران کی سیاسی اور مذہبی قیادت کی جانب سے اسرائیل کے خلاف سخت بیان بازی جاری ہے اور بعض ایرانی لیڈر صہیونی ریاست کو سبق سکھانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

ایرانی پارلیمان کا اتوار کو بند کمرے کا اجلاس ہوا ہے۔ اس کے بعد ایرانی پارلیمان کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے کہا ہے کہ ایران کے دشمنوں کو ایسا سبق سکھایا جائے کہ انہیں فخری زادہ کے قتل پر پچھتانا پڑے۔

انھوں نے ایران کے سرکاری ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’جرائم پیشہ دشمن کو سخت جواب دیا جائے گا تو اس صورت ہی میں وہ پچھتائے گا۔‘‘

دریں اثناء مقتول فخری زادہ کے تابوت کو ایران کے مشرقی شہر مشہد پہنچا دیا گیا ہے جہاں ان کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی۔ ایران کے سرکاری ٹی وی نے ان کی میت مشہد لے جانے کے مناظر نشر کیے ہیں۔

ایران کی نیم سرکاری خبررساں ایجنسی تسنیم نے جمعہ کو یہ اطلاع دی تھی کہ دوپہرڈھائی بجے کے قریب فخری زادہ کی گاڑی کے نزدیک بارود سے لدی ایک کار دھماکے سے اڑا دی گئی تھی۔ اس کے بعد ایک حملہ آور نے سائنس دان کی کار پر فائرنگ کی تھی۔

اس نے مزید بتایا تھا کہ فخری زادہ کے ایک محافظ کو چار گولیاں لگی تھیں۔ انہیں ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے تہران سے ستر کلومیٹر مشرق میں واقع قصبے آب سرد میں ایک اسپتال میں منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ دم توڑ گئے تھے۔

تجزیہ کاروں نے انہیں امریکا کے جوہری سائنس دان رابرٹ اوپن ہائیمر کے مانند قرار دیا ہے۔ یہ امریکی سائنس دان مین ہیٹن پراجیکٹ کے سربراہ تھے، انہوں نے ہی دوسری عالمی جنگ میں جوہری بم تیار کیا تھا اور امریکا نے جاپان کے دو شہروں ناگاساکی اور ہیروشیما پر جوہری بم برسائے تھے جن کے نتیجے میں ہزاروں ، لاکھوں افراد چند لمحوں میں لقمہ اجل بن گئے تھے۔

فخری زادہ کے پُراسرار قتل کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار کے آخری ہفتوں کے دوران میں ایک مرتبہ پھر ایران اور اس کے دشمن ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس سے نومنتخب صدر جو بائیڈن کی سابق ڈیمو کریٹک صدر براک اوباما کی طرح ایران سے دوبارہ سلسلہ جنبانی بحالی کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

واضح رہے کہ 2010ء اور 2012ء کے درمیان ایران کے چار سائنس دان اسی طرح پُراسرارحالات میں مارے گئے تھے۔ تب ایران نے کہا تھا کہ اس کے سائنس دانوں کو منظم انداز میں قتل کیا جارہا ہے اور اس مہم کا مقصد اس کے جوہری پروگرام کو نقصان پہنچانا ہے۔ ایران کا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام فوجی نہیں بلکہ پُرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ اس کے ذریعے جوہری توانائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔