آذربائیجان کو علاقہ دینے سے قبل آرمینیا کے لوگوں نے گھروں کا آگ لگا دی
نگورنو کاراباخ سے باہر دیہاتوں کے آرمینیائی رہائشیوں نے آرمینیا جانے سے قبل اپنے مکانات کو نذر آتش کر دیا ہے۔
آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان امن معاہدے کے مطابق اختتام ہفتہ تک متنازع علاقے کا کچھ حصہ آذربائیجان کے حوالے کرنا ہے۔
آذربائیجان کا ضلع کلبجر جو کئی دہائیوں سے آرمینیائی علحیدگی پسندوں کے زیر کنٹرول تھا کہ رہائشیوں نے گذشتہ ہفتے بڑے پیمانے پر اس وقت ہجرت کا آغاز کر دیا جب اس علاقے کو آذربائیجان کے حوالے کرنے کا اعلان کیا گیا۔
آرمینیائی علیحدگی پسندوں جنہیں آرمینیائی فوج کی حمایت حاصل تھی اور آذربائیجان کی فوج کے درمیان ستمبر میں لڑائی شروع ہوئی جو کم و بیش چھ ہفتوں تک جاری رہی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آرمینیا نے سنیچر کو بتایا کہ اس لڑائی میں اس کے 2317 جنگجو مارے گئے۔
آرمینیا نے ہفتے کے روز تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ نگورنو کاراباخ میں آذربائیجان کے ساتھ لڑائی میں ان کے دو ہزار سے زائد فوجی مارے گئے ہیں۔ آرمینیا کی وزارت صحت کی ترجمان الینا نیکوگوشیان نے فیس بک پر ایک بیان میں لکھا ہے، ''ابھی تک تئیس سو سترہ افرد کی لاشیں ہم تک پہنچی ہیں اور ان میں کئی کی شناخت نہیں ہو سکی۔‘‘ ہلاکتوں کی یہ تعداد چند روز قبل بتائی جانے والی ہلاکتوں سے ایک ہزار زائد بنتی ہے۔
نگورنو کاراباخ میں آذربائیجان کو ترکی کی حمایت حاصل ہے۔ جمعے کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا کہنا تھا کہ ہلاکتوں کی مجموعی تعداد چار ہزار سے بھی زائد ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد آٹھ ہزار کے قریب ہے۔
تاہم آذربائیجان نے تاحال اپنے ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ہے۔
ضلع کلبجر میں اے ایف پی کے صحافی کے مطابق سنیچر کو چھ کے قریب مکانات کو آگ لگائی گئی تھی جن سے دھویں کے بادل اٹھ رہے تھے۔
امن معاہدے کے تحت نگورنو کاراباخ کے متعدد علاقے آذربئیجان کے حوالے کیے جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ویک اینڈ پر ڈیڈ لائن ختم ہونے سے پہلے پہلے بہت سے لوگ آرمینیا جا رہے ہیں اور جانے سے پہلے اپنے گھروں کو بھی آگ لگا رہے ہیں۔
ایک رہائیشی نے خالی مکان میں جلتی ہوئی لکڑیاں اور پیٹرول پھینکتے ہوئے کہا کہ ’یہ میرا گھر ہے، میں اسے ترکوں کے حوالے نہیں کر سکتا۔‘ آرمینیا کے لوگ آذربائیجانیوں کو اکثر ’ترک‘ کہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہر کوئی آج اپنے مکانات کو آگ لگا دے گا۔ ہمیں آدھی رات تک کا وقت دیا گیا ہے یہاں سے جانے کے لیے۔‘
’ہم نے اپنے والدین کی قبروں کو بھی ہٹا دیا ہے، آذربائیجانی ہماری قبروں کی بے حرمتی کریں گے جو ناقابل برداشت ہے۔‘
اس کے علاوہ چارکتار کے گرد جمعہ کو کم از کم دس مکانات کو نذر آتش کیا گیا تھا۔
ایک ہفتہ قبل آذری فورسز کے خلاف لڑنے والے آرسین نے اسی لباس میں جو انہوں نے لڑائی کے دوان پہن رکھا تھا چارکتار کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں اپنی بہن کے ڈائننگ روم ٹیبل کے نیچے آگ لگائی۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اس جلتے ہوئے مکان کے باہر کھڑے ہو کر ان کا کہنا تھا کہ ’وہ صبح تک یہاں ہوں گے، آذری۔ رہنے دیں ان کو یہاں اگر وہ رہ سکتے ہیں۔‘
آرسین نے کہا کہ وہ اور ان کے آرمینیائی ساتھی کچھ بھی قابل استعمال حالت میں آذربائیجان کے لوگوں کو نہیں دینا چاہتے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’انہیں اس ملبے سے اپنے مکانات بنانے ہوں گے۔‘
بعض آرمینیائی رہائشیوں نے سنیچر کو اس علاقے کا دورہ کیا، ممکنہ طور پر آخری بار، اور گاؤں کو جلتا ہوا دیکھا۔
آذربائیجان اور آرمینیا دونوں ہی سابقہ سوویت یونین کی ریاستیں ہیں۔ روس، فرانس اور امریکا کی مدد سے طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے تحت آرمینیا کو کلبجر اور آق دام کے قصبے بیس نومبر تک آذربائیجان کے حوالے کرنا ہیں جبکہ لاچین کا شہر یکم دسمبر تک آذربائیجان کے حوالے کر دیا جائے گا۔
متنازع نگورنو کاراباخ میں روسی امن فوجی تعینات کیے جا رہے ہیں، جو ان سڑکوں کا کنٹرول سنبھالیں گے، جو آرمینیا کو نگورنو کاراباخ سے ملاتی ہیں۔ اس حوالے سے تقریبا دو ہزار روسی فوجی سولہ حفاظتی چوکیاں قائم کریں گے۔
Comments are closed on this story.