بیلجیم: کلاس میں پیغمبر اسلام ﷺ کے خاکے دکھانے پر ٹیچر کو سزا
بیلجیم کے دارالحکومت میں ایک اسکول ٹیچر کو کلاس میں پیغمبر اسلام کے خاکے دکھانے پر معطل کر دیا گیا۔ دائیں بازو کی ملکی سیاسی جماعتوں نے حکام کے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
معطل کیے جانے والا اسکول ٹیچر بیلجیم کے دارالحکومت برسلز کے علاقے مولن بیک کے ایک اسکول میں پڑھاتا تھا۔ مولن بیک میں تارکین وطن کی بڑی تعداد آباد ہے، جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔
حکام نے استاد کا نام نہیں بتایا۔ بیلجیم کے مقامی میڈیا کے مطابق جمعے کے روز اس ٹیچر نے فرانس میں قتل ہونے والے استاد کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اپنی کلاس کے بچوں کو وہی خاکے دکھائے جو فرانس میں دہشت گردانہ واقعے میں قتل کر دیے جانے والے استاد نے اپنی کلاس میں دکھائے تھے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس کلاس میں دس سے گیارہ برس کی عمر کے بچے زیر تعلیم تھے۔ ٹیچر نے شارلی ایبدو میگزین میں شائع شدہ پیغمبر اسلام کے خاکوں میں سے ایک کارٹون دکھانے سے قبل طالب علموں سے کہا کہ اگر وہ یہ خاکے نہیں دیکھنا چاہتے ہو اپنی نظریں جھکا سکتے ہیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق اس واقعے کے بعد اسکول کے طلبا کے والدین نے متعلقہ استاد کے خلاف شکایات جمع کرائیں جس کے بعد محکمہ تعلیم کے حکام نے استاد کے خلاف انضباطی کارروائی شروع کی اور اس استاد کو معطل کرنے کا فیصلہ سنایا۔
مولن بیک کے میئر کے ترجمان نے اس واقعے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ استاد کی معطلی کا فیصلہ کم نابالغ طالب علموں کو نازیبا تصویر یا کارٹون دکھانے کے باعث کیا گیا۔
ترجمان نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد کئی طلبا کے والدین نے شکایات کی تھیں، ''ہمارے فیصلے کی بنیاد کارٹون کے نازیبا ہونے پر ہے۔ اگر یہ خاکہ پیغمبر اسلام کی بجائے کسی اور کا ہوتا تب بھی یہی فیصلہ سنایا جاتا۔‘‘
پیغمبر اسلام کا خاکہ دکھانے پر استاد کو معطل کرنے کے فیصلے پر بیلجیم کے قوم پرست اور دائیں بازو کے سیاست دانوں نے حکام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
بیجلیم کے نیو فلیمش الائنس سے تعلق رکھنے والے سیاست دان نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا، ''ناقابل یقین، مولن بیک میں پیغمبر اسلام کا کارٹون دکھانے پر استاد کو معطل کر دیا گیا۔‘‘
ملکی سینٹ کے رکن گیورگ بوشے نے لکھا، ''امید ہے یہ خبر درست نہیں۔ لیکن اگر یہ درست ہے تو یہ ناقابل قبول ہے اور اسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ آزادی اظہار پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔‘‘
بیلجیم کے پڑوسی ملک فرانس میں رواں ماہ کے وسط میں سیموئل پیتی نامی سینتالیس سالہ استاد کا سر قلم کر دیے جانے کے واقعے کے بعد عوام اور حکومت کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا تھا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے مذہبی شخصیات کے خاکوں سمیت ہر طرح سے آزادی اظہار سے ملکی قوانین کا دفاع یقینی بنانے کا اعلان کیا تھا۔ ماکروں کے اعلان کے بعد مسلم ممالک کی جانب سے بھی شدید ردِ عمل سامنے آیا اور کئی مسلم اکثریتی ممالک میں فرانس کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے۔
جمعرات کے روز فرانسیسی شہر نیس میں بھی ایک چرچ میں پیش آنے والے دہشت گردانہ واقعے میں تین افراد کو قتل کر دیا گیا تھا۔
سن 2015 میں شارلی ایبدو کے دفتر پر دہشت گردانہ حملے کے بعد فرانس کے ساتھ ساتھ بیلجیم میں بھی دہشت گردی کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
Comments are closed on this story.