عراق۔ایران جنگ کی حیران کن تفصیلات پر مبنی 8 گھنٹے کی دستاویزی فلم
دستاویزی فلم پروڈکشن کمپنی "او آر میڈیا" کی جانب سے حال ہی میں عراق۔ایران جنگ کی ہولناکیوں پر مبنی 8 گھنٹے کی ایک فلم تیار کی گئی ہے۔ اس فلم کو آٹھ سال تک جاری رہنے والی جنگ کی نسبت سے 8 گھنٹوں کی الگ الگ 8 قسطوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ فلم العربیہ ٹی وی چینل پر قسط وار نشر کی جا رہی ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ نے ایک رپورٹ میں اس دستاویزی فلم اور اس میں پیش کردہ معلومات پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ فلم عراق۔ایران جنگ کے 40 سال پورے ہونے کے موقع پرریلیز کی جا رہی ہے۔ اس جنگ کا شمار معاصر تاریخ کی ہولناک اور تباہ کن جنگوں میں ہوتا ہے۔
یہ لڑائی اس دو بڑی مسلمان طاقتوں ایران اور عراق کے درمیان چھڑی اور مسلسل آٹھ سال تک جاری رہی۔ اس جنگ میں کس نے کیا کھویا اور کیا پا یہ سوال الگ ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ اس جنگ کے نتیجے میں کئی ہنستے بستے شہر اور آبادیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ روایتی اور غیر روایتی ہتھیاروں سے لڑی جانے والی یہ دور حاضر کی طویل ترین جنگ قرار دی جا سکتی ہے۔
دستاویزی فلم کی تیاری میں اس جنگ کے بعض عینی شاہدین کے بیانات اور ان کے تاثرات کوبھی شامل کیا گیا تاکہ ایسے حقائق جو آج تک سامنے نہیں آسکے اور بے مقصد جنگ کے بارے میں آج کے لوگ بھی جان سکیں۔
مسلسل 8 قسطوں میں تیار کی جانے والی 8 گھںٹوں پرمبنی دستاویزی فلم میں جنگ کے ہولناک واقعات، عینی شاہدین کے بیانات، جنگ کیسے آگے بڑھی، ایران نے اس جنگ میں فتح کے لیے کس طرح ہزاروں بچوں جھونکا، بغداد نے جوابی وار میں کیسے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے؟ کس طرح دونوں فوجوں نے بڑے بڑے شہری ملبے کا ڈھیر بنا دیئے؟۔ اس جنگ میں ہونے والی غیرمعمولی تباہ کاریوں اور انسانی جانوں کے ضیاع پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ اسے جنگ عظیم اول کے مشابہ قرار دیا گیا جس میں ایک ملین لوگوں کو تہہ تیغ کر دیا گیا تھا۔
عراق اور ایران کے درمیان جنگ چھڑی تو دنیا کی بیشتر قیادت اس جنگ میں غیر جانب دار ایک طرف کھڑی تماشا دیکھتی رہی۔ امریکا نے محتاط طرز عمل اختیار کیا۔ ایران چونکہ امریکی سفارت کاروں کو یرغمال بنا کر اپنے لیے پہلے مشکلات کھڑی کر چکا تھا۔ اس لیے وہ اس وقت امریکا کی طرف سے کسی قسم کی امداد کے حصول میں ناکام رہا۔ اس وقت امریکی صدر جمی کارٹر نے کہا تھا کہ جب تک امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا اس وقت تک وہ اس جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ تاہم ان کا یہ دعویٰ زیادہ دیر تک نہ چل سکا۔ خلیج کی تیل کی سپلائی پوری دنیا کی اقتصادیات کے لیے شہ رگ کا درجہ رکھتی تھی۔ وہ اس جنگ کی وجہ سے متاثر ہوگئی اور جنگ چھڑنے کے چند ہی روز میں دنیا میں تیل کے سب سے بڑے کارخانے کو آگ لگا دی گئی۔
دستاویزی فلم میں دکھایا گیا ہے کہ یہ جنگ کیسے دو ملکوں سے آگے بڑھ کر علاقائی جنگ کی شکل میں تبدیل ہوئی اور اس کے بعد کب اور کیسے یہ ایک عالمی جنگ بن گئی۔ اس حوالے سے سفارت کاروں، سیاسی رہ نمائوں ،امریکی وزارت خارجہ کے عہدیدار بربرا بوڈین، وائٹ ہائوس کے مشیر جیفر کیمپ، اس وقت کے سعودی انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل اور فرانسیس مشیر دفاع فرانسو ھایزبرگ کے بیانات اور تاثرات شامل کیے گئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے عراق۔ایران جنگ اپنی آنکھوں سے دیکھی۔
جنگ کے دوسال کے عرصے میں ایسے لگنے لگا کہ ایران جنگ جیت رہا ہے اور اس نے عراقی شہروں کی اینٹ سےاینٹ بجا دی ہے۔ اس وقت امریکا نے اپنی غیرجانب داری توڑتے ہوئے صدام حسین کے ساتھ کھڑا ہونے کا اعلان کر دیا حالانکہ صدام کو توقع تھی کہ امریکا کے بجائے ماسکو اس کی مدد کو آئے گا۔ امریکا نے صدام حسین کو اسلحہ اور جنگ سے متعلق معلومات شیئرکیں مگر یہ ڈیل دو طرفہ تھی۔
امریکا اس وقت ڈبل گیم کھیل رہا تھا۔ ایک طرف امریکا نے عراق کو اسلحہ فروخت کرنا شروع کیا اور دوسری طرف خفیہ طورپر ایران کو بھی اسلحہ فراہم کیا جانا جانے لگا۔ امریکا کو توقع تھی کہ ایران کو اسلحہ فروخت کرنے سے بیروت میں یرغمال بنائے گئے امریکیوں کی رہائی ممکن ہو سکے گی۔ یہاں پر ایران کا کونٹرا اسکینڈل سامنے آیا جس میں امریکی صدر رونلڈ ریگن کو بھی ملوث قرار دیا گیا۔ فلم میں اس وقت کے حالات ، واقعات اور اہم رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔
عراق۔ایران جنگ میں اضافے کے دوران امریکا نے متعدد بار دونوں ملکوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کی مگر ایران کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں کیونکہ ایران کے لیے ہزاروں لوگوں کی جانیں لینا زیادہ سہل تھا۔ جیسے جیسے جنگ آگے بڑھتی جا رہی تھی صدام حسین کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ جلد ہی صدام اپنے ملک ہی نہیں بلکہ اپنی جان سے بھی جائیں گے۔ اس نے عراق نے ایران کے بعض شہروں پر مہلک گیس اور تباہ کن ہتھیاروں سے حملےشروع کردیے۔ عراق کا دعویٰ تھا کہ بعض عراقی کرد بھی ایران کے ساتھ مل گئے ہیں۔ چنانچہ عراقی فوج نے کردوں کی آبادی والے علاقوں کو خاص طورپر نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
دستاویزی فلم میں بتایا گیا ہے کہ ایران کی طرف سے خلیج میں امریکی طیارہ بردار بیڑے کو نشانہ بنانے کے بعد امریکی بحریہ عراق کی مدد کے لیے کود پڑی۔ امریکی بحری بیڑے سموئل بی روبوٹس پرحملے کے نتیجے میں کم سے کم 10امریکی ہلاک ہوگئے۔ امریکا نے عراق کی مدد شروع کردی۔ یہاں تک کہ امریکا کی مدد سے خمینی کو جنگ بندی کی تجویز قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
فرانسیسی مورخ پیر رازو کا کہنا ہے کہ یہ دستاویزی فلم اپنی نوعیت کی عراق۔ایران جنگ کی تفصیلات پر مبنی پہلی مفصل فلم ہے۔
اس فلم کی پہلی سے آخری قسط ملاحظہ کرنے والے یہ جان سکیں گے کہ عراق۔ایران جنگ کیوں اور کیسے شروع ہو گئی۔ اس میں ہونے والی تباہ کاریوں اور دونوں ملکوں کے عوام کو درپیش مصائب، دونوں فوجوں کے وحشیانہ حملوں اور جنگی ہوس کے شکار ایران اور عراق کے حکمرانوں کے طرز عمل کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
فلم کی پہلی قسط میں بتایا گیا ہے کہ حملوں کا آغاز سنہ 1980ء میں ایسے وقت میں ہوا جب عراق اور ایران دونوں کا خیال تھا کہ وہ خطے کی سب سے بڑی طاقتیں ہیں۔ صدام حسین خود کو عرب دنیا کا حاکم قرار دیتے جب کہ دوسری طرف ایرانی بانی انقلاب مرشد اعلیٰ آیت اللہ روح اللہ خمینی ایران کے شیعہ انقلاب کو دوسرے ملکوں اور پوری دنیا میں وسعت دینا چاہتے تھے۔
جنگ لمحہ بہ لمحہ آگے بڑھنے لگی اور دونوں ملکوں کی فوجوں نےایک دوسرے پر تابڑتوڑ حملے شروع کر دیے۔ صدام نے اپنی غیر تربیت یافتہ فوج کو حکم دیا کہ وہ ایران سے متصل آبی پٹی پرقبضہ کرے۔ اس کارروائی میں شروع میں عراقی فوج نے ایران کی چند کلو میٹر اراضی پر قبضہ کر لیا۔ اس میں المحمرہ شہر بھی شامل تھا جو بغداد کے کنٹرول میں آگیا۔ عراقی فوج نے عراق کے تیل سے مالا مال عبدان شہر کا محاصرہ کیا مگر صدام حسین اور اس کی فوج کو وہاں پر ہونے والی مزاحمت نے پسپا کر دیا۔
Comments are closed on this story.