جنسی زیادتی کرنے والے مردوں کی نفسیات
وہ کیا عوامل ہوتے ہیں جن کی وجہ سے کوئی مرد ریپسٹ بن جاتا ہے؟ کوئی بھی جنسی حملہ ایسے کسی جرم کا نشانہ بننے والے انسان کے لیے شدید ذہنی، جسمانی اور جذباتی اذیت کی وجہ بنتا ہے لیکن ایسے جرائم کے اسباب بڑے متنوع ہوتے ہیں۔
اس تکلیف دہ حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ جنسی زیادتی یا ریپ ایک ایسا خوف ناک جرم ہے، جس کا نشانہ بننے والے انسان کو ناقابل تصور حد تک جسمانی اور نفسیاتی اذیت اور تذلیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ اثرات برس ہا برس تک ختم نہیں ہوتے۔
ایسے زیادہ تر متاثرین بے قصور ہونے کے باوجود کافی حد تک خود کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور اکثر خود سے نفرت اور غصے کی حالت میں رہتے ہیں۔ کسی انسان کا ریپ کیا جانا اسے نفسیاتی طور پر عموماﹰ ایسے ذہنی دباؤ اور مسلسل دھچکے کی کیفیت میں ڈال دیتا ہے، جسے ماہرین پوسٹ ٹرامیٹک سنڈروم ڈس آرڈر یا پی ٹی ایس ڈی کہتے ہیں، جو ایک باقاعدہ نفسیاتی بیماری ہے۔
لیکن کیا کسی نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ ریپ کے بعد کوئی ریپسٹ خود اپنے بارے میں کیا سوچتا ہے؟ مرد عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں کیوں کرتے ہیں؟ یہ ایک پیچیدہ سوال ہے، جس کے کئی جوابات ہیں۔ اس لیے کہ کوئی بھی انسان کئی مختلف عوامل کے نتیجے میں ریپ کا مرتکب ہوتا ہے۔
کئی ریپسٹ ایسا بدلہ لینے کے لیے بھی کرتے ہیں اور اسی لیے ان کی نفرت کا ہدف خاص طور پر عورتیں ہوتی ہیں
جنسی حملہ کرنے والا مجرم کسی بھی طرح کا انسان ہو سکتا ہے۔ اس بات کا مطلب یہ نہیں کہ ہر کوئی یہ سوچ کر خوف زدہ ہو جائے کہ اس پر کوئی بھی ایسا حملہ کر سکتا ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ جنسی زیادتیاں کرنے والے افراد کی شخصیت کی نفسیاتی طور پر کوئی خاص قسم نہیں ہوتی۔
امریکا کے مشہور کلینیکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹر سیموئل اسمتھی مین نے 1970ء کی دہائی میں 50 ایسے مردوں کی شناخت خفیہ رکھتے ہوئے ان کے مفصل انٹرویو کیے تھے، جنہوں نے باقاعدہ عدالتی اعتراف کیے تھے کہ وہ کسی نہ کسی انسان کے ریپ کے مرتکب ہوئے تھے۔ یہ تمام سزا یافتہ مجرم اپنے ذاتی پس منظر، سماجی حیثیت، شخصیت اور ذہنیت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے۔
ماہرین نفسیات کے مطابق کسی بھی ریپسٹ کے جرم کے اسباب کی تشخیص کے لیے اس عمل کی وجوہات کا ٹھوس تعین اور ان وجوہات کی شدت طے کرنا بہت مشکل ہے۔ تاہم کئی مختلف نفسیاتی اور طبی جائزوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ریپ کے مرتکب افراد میں کسی کا جسمانی یا نفسیاتی دکھ محسوس کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہوتا ہے، وہ تقریباﹰ بیماری کی حد تک خود پسندی کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں خاص طور پر خواتین کے خلاف جارحانہ جذبات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔
کئی واقعات میں ریپ جنسی جذبات کی تسکین کے لیے نہیں بلکہ عورتوں کو ذلت آمیز طریقے سے مغلوب کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
امریکی ریاست ٹینیسی کی یونیورسٹی آف دا ساؤتھ کی نفسیات کی ریسرچر اور پروفیسر شیری ہیمبی نے جرمن خبر رساں ادارے کو ایک انٹرویو میں بتایا، ''کئی واقعات میں جنسی حملہ جنسی جذبات کی تسکین یا جنسی دلچسپی کو پورا کرنے کے لیے نہیں کیا جاتا، بلکہ اس کا مقصد دوسرے لوگوں کو ذلت آمیز طریقے سے مغلوب کرنا ہوتا ہے۔‘‘
پروفیسر شیری ہیمبی، جو امریکی سائیکالوجیکل ایسوسی ایشن کے جریدے 'نفسیات اور تشدد‘ کی بانی مدیرہ بھی ہیں، نے بتایا، ''مردوں میں ان کی مردانگی سے متعلق سوچ ایک ایسا زہر ہے، جو ریپ کے جرم کو ہوا دیتا ہے۔ کئی ریپسٹ اور دیگر جنسی جرائم کر مرتکب افراد نوجوان ہوتے ہیں۔ وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ اپنے ساتھیوں میں اپنی مردانہ ساکھ بہتر بنا سکیں۔ اس لیے کہ ان کے لیے یہ بات انتہائی پریشان کن ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے دوستوں یا قریبی حلقوں کی نظر میں جنسی طور پر ناتجربہ کار ہوتے ہیں۔‘‘
ماہرین نفسیات کے مطابق یہ طے کرنا بہت ضروری ہے کہ ریپ کو کوئی ایسا جرم نہ سمجھا جائے، جس کی وجہ صرف جنسی خواہشات بنتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق کسی پر جنسی حملہ کرنا ایک پرتشدد مجرمانہ فعل ہے اور اس کی کوئی بھی دوسری قانونی وضاحت نہیں کی جا سکتی۔
اگرچہ ریپ کے مرتکب کئی مجرموں میں نفسیاتی خامیاں بھی پائی جاتی ہیں، تاہم کلینیکل سائیکالوجی کے ماہرین کے مطابق ایسا کوئی نفسیاتی عارضہ ابھی تک دریافت نہیں ہوا، جو کسی مجرم کو اس امر پر مجبور کرے کہ وہ کسی کا ریپ کرے۔
جنسی زیادتیوں کے مرتکب مردوں میں خواتین کے لیے تحقیر اور نفرت کے جذبات عام ہوتے ہیں۔ وہ خواتین کو اکثر ایسی 'جنسی چیزوں‘ کے طور پر دیکھتے ہیں، جن پر غالب آ کر وہ اپنی جنسی خواہشات کو بھی پورا کر سکتے ہوں۔
اس کے علاوہ ایسے مجرم اپنے طور پر کئی مفروضے بھی گھڑ لیتے ہیں۔ مثلاﹰ اگر کسی خاتون نے ان کے ساتھ جنسی تعلق سے انکار کیا ہو، تو ان کے نزدیک اس کا مطلب 'ہاں‘ ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انکار کرنے والی کوئی بھی خاتون دراصل انہیں چیلنج کر رہی ہے۔
ریپ کے مرتکب مردوں کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ کئی موقع پرست ریپسٹ ہوتے ہیں ،جو اپنے لیے جنسی تسکین کا کوئی بھی موقع استعمال کر لیتے ہیں۔ ایک دوسری قسم ان اذیت پسند مردوں کی ہوتی ہے، جن کی طرف سے ایسے جرائم کے ارتکاب کا مقصد کسی بھی عورت کی تذلیل اور جسمانی تضحیک ہوتی ہے۔
کئی ریپسٹ ایسا بدلہ لینے کے لیے بھی کرتے ہیں اور اسی لیے ان کی نفرت کا ہدف خاص طور پر عورتیں ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ ایسے مجرم اکثر اپنے لیے اپنے جرائم کی کوئی نہ کوئی ایسی جھوٹی دلیل بھی تلاش کر لیتے ہیں، جس کے ذریعے وہ خود کو مطمئن کر لیتے ہیں۔
ان تمام حقائق کے باوجود ریپ ایک ایسا ناقابل معافی جرم ہے، جو انتہائی مجرمانہ نوعیت کی کارروائی ہونے کی وجہ سے سخت سے سخت سزا کا متقاضی ہوتا ہے۔
Comments are closed on this story.