بلوچستان میں جانوروں کی ہڈیوں کے ذریعے مستقبل کی پیش گوئی
مستقبل کے بارے میں جاننے کی خواہش کسے نہیں ہوتی اس مقصد کے لیے انسان زمانۂ قدیم سے علم جوتش اور دوسرے علوم پر انحصارکرتا رہا ہے۔ اسی طرح کچھ تہذیبوں میں ایسے عقائد و روایات بھی موجود تھے، جن سے انسان اپنے ارد گرد بکھری اشیاء کے ذریعے مستقبل کا حال جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسی اشیاء سے مستقبل میں جھانکنے کا علم ان اقوام کے بزرگ افراد سے علم سینہ بہ سینہ اگلی نسلوں میں منتقل ہوتا رہا۔
'اوسٹیومینسی‘یا علم ِاستخواں دنیا کے مختلف خطوں میں صدیوں سے استعمال کیا جانے والا مستقبل بینی کا طریقۂ کار ہے، جس میں جانوروں کی ہڈیوں کے ذریعے سعد و نحس اوقات، شادی بیاہ، اولاد، بارشوں یا خشک سالی، وبائی امراض اور قدرتی آفات وغیرہ کے متعلق پیش گوئی کی جاتی ہے۔ یہ طریقۂ کار مشرقی اور شمال مشرقی ایشیا خصوصاً چین میں خاصا مقبول رہا ہے۔ ان علاقوں کے جغرافیائی محل ِ وقوع کے مطابق مختلف جانوروں جیسے بھیڑ، بکری، گائے، ہرن، رینڈیر اور خنزیر وغیرہ کے کندھے کی ہڈیاں استعمال کی جاتی تھیں۔
مستقبل کے متعلق پیش گوئی کے لیے ایسے معاشرے کے 'سیانے‘ کسی ایسے جانور کی ہڈیوں کا انتخاب کرتے ہیں، جن کا وہاں کے سماجی و معاشی نظام پر گہرا اثر ہو۔ ان جانوروں کی ہڈیوں کو براہِ راست آگ میں جلا کر، ابال کر یا کسی اور عمل سے گزار کر ان سے مستقبل کا حال جاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بلوچستان میں ڈیرہ بگٹی، بارکھان، روجھان اور ملحقہ علاقوں کے مختلف قبائل میں جو طریقہ پیش گوئی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں بھیڑ یا بکرے/ بکری کے کندھے کی ہڈی "سکیپیولا" پر سے بہت احتیاط کے ساتھ گوشت اتارا جاتا ہے اور پھر اس پر ابھرنے والے افقی، عمودی، دائروی یا رنگ دار نشانات کو ڈی کوڈ کر کے پیش گوئی کی جاتی ہے۔ اس عمل کو مقامی زبان میں "باردست" کہا جاتا ہے۔
شمال مشرقی ایشیائی ممالک میں اس مقصد کے لیے جو طریقۂ کار استعمال کیا جاتا ہے اسے "پائیرو اوسٹیومینسی" کہا جاتا ہے۔ اس میں ہرن، بھیڑ یا خنزیر کے شانے کی ہڈی کو آگ میں جلایا جاتا ہے اور بعد میں ہڈی پر چٹخنے کے نشانات سے مستقبل کے حالات کے بارے میں مدد لی جاتی ہے۔ ہڈی کے مختلف حصوں کو مختلف معاملات سے منسوب کیا جاتا ہے۔ جیسے ہڈی کے اوپر کا حصہ سیاست و حکومت، درمیانی حصہ معاشی حالات اور بارش یا موسم جبکہ نچلا حصہ خاندان و ذاتی زندگی کے مخصوص ہوتا ہے۔
بلوچستان کے دیہی اور قبائلی علاقے جہاں ابھی تک تعلیم کا فقدان اور سرداری و نوابی نظام کا راج ہے وہاں باردست کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور اسے مقامی اخبار سمجھا جاتا ہے جو مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی خبر دیتا ہے۔ یہ جاننے کے لئے مقامی افراد سے رابطہ کیا کہ اس طریقۂ کار کا اصل ماخذ کیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ علم اپنے بزرگوں سے منتقل ہوا اور بزرگوں کو آباؤ اجداد کے ذریعے ملا۔ یہ لوگ کوئی معتبر و مستند تاریخی حوالہ دینے سے قاصر ہیں۔
روجھان سے تعلق رکھنے والے عابد بلوچ کے مطابق انہوں نے اس طرح کی ہڈی اپنے بزرگوں اور خانہ بدوشوں کے پاس دیکھی ہے مگر وہ اسے فال سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ایک دفعہ انہوں نے ایک خانہ بدوش سے یہ ہڈی لے کر اس کا معائنہ کرنے کی کوشش کی تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ پیش گوئی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ عابد بلوچ کو یقین ہے کہ فی زمانہ جو لوگ اس علم کا دعویٰ کرتے ہیں وہ دھوکا دیتے ہیں۔
قدیمی دور میں تقریبا ایک ہزار قبل چین کے شینگ شاہی دور میں پائیرو اوسٹیومینسی کا رواج رہا تھا۔ ایسے ہی شمالی امریکا کے مختلف قبائل میں بھی اوسٹیومینسی کا اعتقاد پایا جاتا رہا۔ مگر بلوچستان یہ روایت کس دور میں اور کیسے پہنچی اس حوالے سے کوئی تحقیق نہیں ہوئی۔
ڈیرہ بگٹی اور ڈسٹرکٹ بارکھان سے ملحقہ علاقوں میں مختلف قبائل کے کم پڑھے لکھے افراد آج کے ڈیجیٹل دور میں بھی باردست پر بھرپور یقین رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس طریقۂ کار کو قبیلے کا سردار منتخب کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ نہر کوٹ سے تعلق رکھنے والے اویس کوئٹہ کے ایک لوکل کالج میں زیر تعلیم ہیں۔ ان کے مطابق وہ باردست پر بالکل یقین نہیں رکھتے کیونکہ ایکسپرٹ کے پاس اس کے مستند ہونے کی واحد دلیل یہ ہے کہ اگر ایک بکرے یا بھیڑ کے دائیں اور بائیں کندھے کی ہڈی پر پائے جانے والے نشانات اورعلامات ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوں تو پیش گوئی 90 فیصد درست ہو گی۔
جمیل بگٹی بھی اسی علاقے سے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں زیادہ تر مقامی افراد بیٹا یا بیٹی کی پیدائش کے لیے باردست کی مدد لیتے ہیں جو آج کے دور میں انتہائی مضحکہ خیز لگتا ہے۔
لاہور کی فارمین کرسچیئن کالج یونیورسٹی کے سکول آف لائف سائنسز سے وابسطہ سینیئر استاد ڈاکٹر محمد مصطفیٰ کے مطابق انہیں پہلی دفعہ باردست کے بارے میں نواب اکبر بگٹی مرحوم کے ایک ٹی وی انٹرویو کے ذریعے معلوم ہوا۔ تب انہوں نے اس کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کی لیکن انہیں انٹرنیٹ یا دیگر ذرائع سے اس پر کوئی مستند تحریر نہیں مل سکی۔
Comments are closed on this story.