خلائی مخلوق ہے بھی یا نہیں؟
کائنات میں ہم اکیلے ہیں یا کہیں کوئی ہے جو ہم سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟ بعض لوگ اس بات پر قائل ہیں کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ ان خلائی جہانوں میں یقین رکھنے والوں کی باتوں کو اکثر لوگ خیالی باتیں سمجھ کر ٹال دیتے ہیں۔
لیکن سائنسی تحقیق کے معتبر جریدے 'جرنل آف ایسٹرو فزکس' میں شائع ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہمارے ستاروں کی کہکشاں یا گیلکسی میں زندگی اور ذہانت سے بھرپور چتھیس مختلف تہذیبیں ہو سکتی ہیں۔
سائنس دان جب بھی گمبھیر سوالوں کے جواب ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو کچھ مفروضات پر اپنی تحقیق کو آگے بڑھاتے ہیں۔
خلائی مخلوق کا معمہ حل کرنے کی لیے برطانیہ کی ناٹنگھیم یونیورسٹی کے ماہرین نے اس بات کو بنیاد بنایا کہ قرہ ارض کی طرح باقی سیاروں پر بھی ذہانیت سے بھرپور مخلوق ابھرنے میں لگ بھگ پانچ ارب سال لگتے ہیں۔
پھر انہوں نے ہماری کہکشاں میں ایسے سیاروں کو تلاش کیا جن کی عمر، ان کا اپنے سورج سے فاصلہ، وہاں کا درجہ حرارت اور دیگر حالات ہمارے سیارے جیسے ہوں۔
یوں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر قرہ ارض کے مخصوص ارتقائی حالات میں ہم سب سے ذہین مخلوق ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں تو اسی قسم کے حالات ہم سے بہت دور دیگر سیاروں پر بھی ذہین مخلوق کو جنم دے سکتے ہیں۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کائنات میں شاید صرف انسان ہی اشرف المخلوقات نہ ہو بلکہ ہمارے جیسی یا ہم سے بھی زیادہ ذہین مخلوق کا وجود ممکن ہو سکتا ہے۔
ہمارے ذہنوں میں خلائی مخلوق سے متعلق تجسس ہالی وڈ کی مشہور فلموں 'اسٹار وارز' اور سائنس فِکشن کے دیگر پروگراموں اور کہانیوں سے پروان چڑھتا ہے۔ لیکن اس بارے میں ہمارے پاس اب تک جو سائنسی معلومات موجود رہی ہے، اس کا بڑا سہرا ماہرِ فلکیات فرینک ڈریک کے سر ہے جنہوں نے سن انیس سو اکسٹھ میں اپنے کام کو ایک تحقیق میں سمیٹا۔
فرینک ڈریک کے نام سے منسوب 'ڈریک ایکویشن' نے ماہر فلکیات کو مختلف مفروضات پر مبنی ایک نیا راستہ دکھایا جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ ہماری کہکشاں میں کتنی ایسی تہزیبیں ہو سکتی ہیں جن میں مواصلاتی رابطے کی صلاحیت ہو۔
لیکن یونیورسٹی آف ناٹنگھیم کے ماہرین کے مطابق 'ڈریک ایکویشن' کے کچھ عوامل بلکل نامعلوم تھے، جس کے باعث اس کی افادیت محدود ہو گئی تھی اور مزید تحقیق کے لیے نئی جہتوں پر کام کرنی کی ضرورت تھی۔
ماہرین کے مطابق 'ڈریک ایکویشن' اور ناٹنگھیم یونیورسٹی کے تحقیق میں بنیادی فرق یہ ہے کہ نئی تحقیق کی بنیاد ایک بہت ہی سادہ سا مفروضے ہے اور وہ یہ کہ سیاروں پر زندگی کیسے، کن حالات میں اور کتنے عرصے میں ابھرتی ہے؟ ماہرین کے مطابق ان سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے علاوہ بھی اس کہکشاں میں درجوں دیگر ذہین مخلوقوں کا وجود ممکن ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ فی الحال یہ ممکن نہیں اور اس کام میں ہزاروں سال لگ سکتے ہیں۔ ان کے بقول انہوں نے کہکشاں میں جن چھتیس تہذیبوں کی نشاندہی کی ہے وہ ہم سے اوسط سترہ ہزار نوری سال دور ہیں۔ فلکیات کے میدان میں ایک نوری سال لگ بھگ چھ کھرب میل دور ہوتا ہے۔
لیکن ماہرین کے مطابق اس تازہ تحقیق کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ اس سے نہ صرف ہمیں خلا میں موجود دیگر مخلوق کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ خود ہمارے سیارہ کب تک قائم رہ سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق دیگر خلائی مخلوق کے وجود کی تصدیق تبھی ممکن ہو سکتی ہے اگر وہ بھی ہماری طرح خلا میں ریڈیو ٹرانسمشن، سیٹیلائیٹ اور ٹی وی کے ذریعے سنگل بھیج رہے ہوں۔
قرہ ارض پر ٹیکنالوجی کا انقلاب آئے ہوئے ابھی صرف سو سال ہی ہوئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کبھی کسی خلائی مخلوق کے سگنل ہم تک پہنچ جاتے ہیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ ترقی میں وہ ہم سے آگے ہیں اور ہمارے سیارے کی بھی لمبی عمر ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر ہمارا کبھی کسی دوسری مخلوق سے رابطہ نہ ہوا تو اس کا یہ مطلب لیا جائے سکتا ہے کہ ہم شاید تنہا ہیں اور کائینات میں ہمارا وجود بھی محدود عرصے کے لیے ہوگا۔
Comments are closed on this story.