مشکلات کا شکار نظام تعلیم ایک سپہ سالار سے محروم
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی انتقال کی اچانک خبر ملتی ہے تو دکھ ہوتا ہےاور ہم رسم دنیا ادا کرنے کےلئے تعزیت اور جنازے میں شرکت کرکے اسے سپردخاک کردیتے ہیں، اور پھر دنیا میں مگن ہوجاتے ہیں، مگر آج صبح جب مجھے ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر انوار احمد زئی کے انتقال کی اچانک خبر ملی تو کافی دیر تک توسکتہ طاری رہا اوردماغ اس خبر کو تسلیم کرنے سے انکار کرتارہا، مگر حقیقت سے تو انکار نہیں،مجھے اکثر کبھی اپنا املا درست کرنا ہو یا کوئی ادبی، تعلیمی، تاریخی یا اہم معلومات جاننا ہوتی تو بے دھڑک انھیں فون کرلیا کرتاتھا بغیر یہ دیکھے کہ وقت کیا ہورہاہے، مجھے وہ کامریڈ کھ کر مخاطب کرتے تھے،جب وہ میٹرک بورڈ کےچئیرمین تھے تو میں انکے آفس میں بیٹھا تھااور کچھ دیگر ماہر تعلیم بھی وہاں موجودتھے انھوں نے مجھے اس ہی نام سے مخاطب کیا تو وہاں موجود لوگوں نے حیرت سے پہلے مجھے پھر انھیں دیکھا تو انوار احمد زئی کہنے لگے کہ "کامریڈ" ایک اصطلاح ہے جس کے معنی دوست "ساتھی" یا اتحاد ی کے ہیں،غرض کہ جب انکے پاس بیٹھتا تو کوئی نہ کوئی مفید معلومات لے کر ہی جایا کرتا تھا،وہ کبھی کبھی مجھے جادوگر کھ کربھی بلالیاکرتے تھےانکے ہمراہ میٹرک اور انٹر کے امتحانات کےدوران امتحانی مراکز کا دورہ کرنےجب جاتے تو وہ ہمیں کسی بھی سینٹرپر خود لیجانے کی بجائے ہم سے پوچھا کرتے تھے کہ آپ لوگ بتائیں کہ کون سے امتحانی مرکزمیں چلاجائے تاکہ شفافیت برقرار رہے اور اچانک کسی بھی امتحانی مرکز کادورہ کیا جاسکے، ایک سال قبل ضیاالدین یونیورسٹی ایگزامینیشن بورڈ باقاعدہ وجود میں آیا تو اسکی سب سے پہلے خبر میں نے بریک کی کہ ضیاالدین بورڈ اس سال امتحانات منعقد کریگا یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور پروفیسر انوار احمد زئی نے مجھے فون کرکے کہا کہ آج تم نے یہ خبر سب سے پہلے بریک کرکے ایک تمغہ اپنے نام کرلیاہے،اوراب کبھی بھی بورڈ کے قیام کا ذکر ہوا تو تمہاری اس بریکنگ کو یاد رکھا جائیگا، اور اس بات کا ذکر وہ خود کئی مرتبہ مختلف لوگوں کے سامنے کرچکے ہیں۔
علم وادب سےوابستہ کوئی ایساانسان نہیں جو کہ اس شخصیت کا گرویدہ نہ ہو،آپ جب کسی تقریب میں سیرت النبیﷺ پر گفتگو کرتے توہرسننے والے کی کیفیت ایسی ہوتی کہ محو ہوجایا کرتا، ادبی یا تاریخی گفتگو کرتے تو محسوس ہوتا کہ یہ شخصیت علم وادب کی ایک ایسی لائبریری ہےجسکے دروازے ہر خاص وعام کےلئے کھلے ہیں،
اللہ تعالیٰ انکی مغفرت فرمائے اوراپنے جوار رحمت میں جگہ دے،
بیاسی سال کی عمرمیں بھی وہ تعلیمی بہتری کےلئے کوشاں رہے،امتحانی بورڈ کے سلسلے میں کراچی کے مختلف علاقوں تو کبھی دیگر شہروں میں دورے کرتے رہےانھوں نےکورونا کی وباء اور لاک ڈاؤن کے بعد امتحانات کے انعقاد سے متعلق بیشترمفید تجاویزبھی حکومت کو پیش کیں جوکہ یا تو سنی نہیں گئیں یا پھر رد کردی گئیں،
دانشور،ماہر تعلیم، مصنف اور تعلیم سے جڑے کئی اہم سرکاری عہدوں پر فائر رہنے والے پروفیسرانواراحمد زئی پاکستان بوائے اسکاوٹس ایسوسی ایشن کے نیشنل کمشنر،چئیرمین کمیٹی آف چئیرمین، ممبربورڈ آف ڈائریکٹرزآغاخان یونیورسٹی ایگزامینیشن بورڈ، ممبرایڈوائزری بورڈ کالج آف بزنس مینیجمنٹ کریک، ممبربورڈ آف گورنرز، بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن حیدرآباد، ممبربورڈ آف گورنرزبورڈ آف سیکنڈی اینڈ انٹرمیٖڈیٹ ایجوکیشن لاڑکانہ اور میرپورخاص، سندھ بوٖرڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کراچی،ممبر اردوڈکشنری ایڈوائزری بورڈ، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ضیاء الدین تعلیمی بورڈ کے عہدے پر فائض تھے،انھوں نے ایم اے انگریزی، ایم اے اردو، ایل ایل بی، بی ایڈ اور ایم ایڈ کی ڈگریاں پہلی پوزیشن سے حاصل کیں جبکہ امریکہ سے سی اے ایس، (الباما)اور لیڈر شپ ان ایڈمنسٹریشن بھی حاصل کی،انہوں نے سیرت النبی پرمتعدد کتابیں تصنیف کرنے کے علاوہ ٹی وی پروگرام کی میزبانی بھی کی، انکی تصانیف میں درد کارشتہ، دیس پردیس، آنکھ سمندر، قلم گویاد، دل دریچے، سمیت دیگر کئی شامل ہیں، سینکڑوں مضامین انکے مختلف مقامی اور بین القوامی جریدے میں چھپ چکے ہیں، انھوں نے تعلیمی اورادبی کورس اور سیمینارمیں شرکت کےلئے امریکہ، برطانیہ، فرانس، ساؤتھ کوریا، سنگاپور، ایران ، بنگلہ دیش، فلپائن، سری لنکا، تھائی لینڈ ترکی، ملائشیاء، انڈیا ، سوئیڈن، انڈونیشیاء سمیت دیگر کئی ممالک کادورہ کیا،
پروفیسرانوار احمد زئی نے چئیرمین انٹر، میٹرک بورڈ کی ذمہ داریاں نبھائیں،میرپوخاص بورڈ بناتواس کے بانی چیئرمین بنے،چئیرمین سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ، ایڈیشنل سیکریٹری تعلیم،ایگزیکٹیو ڈسٹرکٹ آفیسرایجوکیشن، سی ڈی جی کے، ڈائریکٹرایجوکیشن کراچی، پروجیکٹ ڈائریکٹرورلڈبینک، ایشیاء ڈیولپمنٹ بینک، مڈل اسکول پروجیکٹ، سمیت بیشتر اہم تعلیمی عہدوں پر فرائض انجام دیئے،انوار احمد زئی علم و ادب سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ساتھ ہی ایک سچے عاشق رسول بھی تھے۔ وہ اپنی زندگی میں باقاعدگی سے میلا د النبیﷺ کی محفلوں کا انعقاد بھی کراتے رہے،سال 2016 میں جب وہ میٹرک بورڈ کراچی کے چئیرمین تھے تو انھیں غیرقانونی بھرتیوں کے الزامات پر نیب نے گرفتار کیا، تاہم کچھ دنوں بعد وہ رہا ہوگئے،تعلیمی نظام میں یہ ایک ایسا خلاء ہے جو شاید اس صورتحال میں پر ہونا ممکن نظرنہیں آتا۔
Comments are closed on this story.