Aaj News

جمعرات, نومبر 21, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

کورونا وائرس: شہروں کو لاک ڈاؤن کرنے کا کیا مطلب ہے؟

اپ ڈیٹ 18 مارچ 2020 08:03am

کورونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر اگرچہ پاکستان میں فی الحال صرف بڑے اجتماعات کو بند کیا گیا ہے تاہم دنیا بھر میں متاثرہ ممالک لاک ڈاؤن کر رہے ہیں تاکہ لوگ اپنی نقل و حرکت محدود کریں اور وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

لاک ڈاؤن کا لفظ اب زبان زد عام ہو چکا ہے مگر لاک ڈاؤن ہوتا کیا ہے اور اس کے دوران کس قسم کی نقل و حرکت روکی جاتی ہے؟

میریم ویبسٹر ڈکشنری کے مطابق 'لاک ڈاؤن ایک ہنگامی اقدام ہوتا ہے جس میں خطرے کی حالت میں لوگوں کو ایک محدود علاقے یا بلڈنگ کو چھوڑنے سے عارضی طور پر روکا جاتا ہے۔'

ماہرین کے مطابق لاک ڈاؤن کے نفاذ کا مقصد لوگوں کا تحفظ ہوتا ہے اور کورونا سے قبل فائرنگ یا بم حملے کا خطرہ عام طور پر اس کی وجوہات میں شمار ہوتے تھے۔

پاکستان میں لاک ڈاؤن کا مطلب کیا ہے؟

گذشتہ ہفتے وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو پانچ اپریل تک بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ ملک میں شادی ہالز اور کمیونٹی سینٹرز کو بھی تقاریب سے روک دیا گیا جبکہ پاکستان سپر لیگ کے چند میچز کو پہلے تماشائیوں کے بغیر بند اسٹیڈیمز میں کروایا گیا اور اس کے بعد سیمی فائنلز اور فائنل کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا گیا۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے سابق چیئرمین میجر جنرل (ریٹائرڈ) اصغر نواز کے مطابق 'ذاتی آئسولیشن کی طرح "لاک ڈاون" ایک بڑی سطح کی آئسولیشن کو کہتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کا وائرس سے سامنا کم سے کم ہو۔ پاکستان کی حکومت نے لاک ڈاؤن  کے پہلے مرحلے میں جو اقدامات کیے ہیں وہ اسکولوں کو بند کرنا یا اجتماعات کو کم کرنا ہے۔'

میجر جنرل (ریٹائرڈ) اصغر نواز کے مطابق 'لاک ڈاؤن کے اگلے مرحلے میں باقی سرگرمیوں کو محدود کرنا ہے جیسے کاروبار، کھیل اور سماجی زندگی کو ختم یا محدود کرنا اور اس کے بعد سرکاری اور نجی دفاتر کو بند کرنا ہے۔ اس سے اگلے مرحلے میں کرفیو کا نفاذ ہوتا ہے جس میں لوگوں کو محدود وقت کے لیے شاپنگ مالز یا ریستورانوں تک رسائی دی جاتی ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'جس طرح ڈینگی کو روکنے کے لیے مچھروں کی افزائش کے تمام ذرائع بند کرنا ہوتے ہیں اسی طرح کورونا کی روک تھام کے لیے بھی اس کے پھیلانے والے تمام ذرائع جن میں انسان شامل ہیں انہیں روکنا ہوگا۔'

ان کا کہنا ہے کہ 'اگر 14 دن تک ہر کسی کو روک دیا جائے تو پھر اس کے مریض سامنے آجائیں گے اور جو اس سے محفوظ ہوں گے ان کو علیحدہ کر دیا جائے گا اور مریضوں کا علاج کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ باہر سے بھی وائرس کا کوئی ذریعہ باقی آبادی تک نہیں پہنچ سکے گا۔'

انہوں نے مزید کہا کہ 'یہ انتہائی اقدام ہوگا جس کی قیمت بھی ہوگی اور عوام میں افراتفری پھیلنے کا خدشہ ہوگا۔ کاروبار کا نقصان بھی ہوگا اور روزانہ کا کام کرنے اور مزدوری کرنے والے افراد بری طرح متاثر ہوں گے۔'

این ڈی ایم اے کے سابق چیئرمین کے مطابق 'موجودہ حکومت کی حکمت عملی مرحلہ وار اقدامات اٹھانا ہے۔'