طالبان کی لاتعلقی، کابل حملہ مشکوک ہوگیا
کابل: افغان دارالحکومت کابل میں ایک تقریب کے دوران فائرنگ کا واقعہ اور حملے سے افغان طالبان کے فوری لاتعلقی کے اعلان نے معاملات کو شکوک شہبات کی نذر کر دیا۔
امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے بعد افغانستان سے آنے والی خبروں ایک بار پھر خوف کی فضا دکھائی دے رہے ہیں۔
افغان دارالحکومت کابل میں ایک تقریب کے دوران فائرنگ کا واقعہ بھی معمہ بن گیا۔ حملے سے افغان طالبان کا فوری لاتعلقی کا اعلان ان تمام شکوک کو ہوا دینے کا باعث بن رہا ہے جس کا اظہار کئی تجزیہ نگار کرتے نظر آتے ہیں۔
سابق سفیر رستم شاہ مہمند کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کے بعد تین روز کے اندر 60 سے زائد حملوں کا ہونا بھی قابل تشویش ہے۔
دوسری جانب واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کرلی ہے۔
گذشتہ چند روز سےافغانستان میں ہونے والے واقعات جبکہ کابل اور قطر سے آنے والے بیانات نے 10 مارچ تک 6 ہزار قیدیوں کے تبادلے سے متعلق غیریقینی صورتحال پیدا کر دی ہے جس پر توجہ بے حد ضروری ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک تقریب پر خود کش حملے میں ستائیس افراد ہلاک ہوئے۔ حملے میں اہم سیاسی رہنما عبد اللہ عبداللہ اور سابق صدر حامد کرزئی بال بال بچ گئے۔ طالبان نے حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
کابل میں حزب وحدت پارٹی کے سربراہ عبد العلی مزاری کی برسی تقریب جاری تھی کہ پہلے فائرنگ کی آواز آئیں پھر دھماکا ہوگیا۔
اسٹیج پر موجود حکومتی حکام، افغانستان کے سابق چیف ایگزیکیٹو عبد اللہ عبداللہ اور سابق صدر حامد کرزئی حملے میں بال بال بچ گئے۔
افغان وزارت داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ خود کش حملے میں 27 افراد ہلاک ہوئے اور 29 زخمی ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی نے خود کش حملے کو جنگی جرم قرار دیتے ہوئے واقعے کی پر زور مذمت کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ امن معاہدے کے بعد سے پُر تشدد کارروائیاں تھم جانا چاہیئے لیکن شر پسند امن پر آمادہ نظر نہیں آتے۔
تاحال کسی شدت پسند جماعت نے خود کش حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے جب کہ طالبان کی جانب سے جاری بیان میں بھی حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا گیا ہے۔
Comments are closed on this story.