پاکستانی صارفین کے موبائل فون سموں کی دوبارہ تصدیق کا فیصلہ
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے موبائل فون استعمال کرنے والے تمام صارفین کی سموں کی دوبارہ سے تصدیق پر غور کر رہی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہر سم وہی شخص استعمال کر رہا ہے جس کے نام پر اسے موبائل فون کمپنی نے جاری کیا ہے۔
وزارت داخلہ کے ایک اعلیٰ افسر نے عرب خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے اور دیگر اداروں کی جانب سے دی جانے والی تجویز کی اصولی منظوری دے دی گئی ہے اور امید ہے کہ دوبارہ تصدیق کا عمل رواں برس ہی مکمل کر لیا جائے گا۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے مطابق اس وقت ملک میں 16 کروڑ 40 لاکھ موبائل فون استعمال کرنے والے صارفین موجود ہیں جن میں سے 7 کروڑ 46 لاکھ تھری جی اور فور جی سمارٹ فونز استعمال کرتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ادارے اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارروں کا مؤقف ہے کہ اس وقت متعدد جرائم حتیٰ کہ دہشت گردی کے لیے بھی جرائم پیشہ افراد ایسی سمیں استعمال کرتے ہیں جو ان کے نام پر نہیں ہوتیں۔
ایک سوال پر کہ بائیومیٹرک تصدیق کے باوجود سمیں کیسے غلط استعمال ہوتی ہیں اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ جرائم پیشہ گینگ معصوم دیہاتی افراد سے موبائل کمپنیوں کی انگوٹھا لگانے والی مشینوں پر چند روپوں اور اشیائے خورونوش کے بدلے انگوٹھا لگوا لیتے ہیں اور ان کے نام پر سمیں جاری کروا کر انہیں استعمال کرتے ہیں۔
ان جعلی سموں کے ذریعے مختلف قسم کے جرائم جن میں بینک فراڈ، شناخت کی چوری، سائبر کرائم اور دہشت گردی کی وارداتیں کی جاتی ہیں۔
ذرائع کے مطابق تمام سموں کی دوبارہ تصدیق کے لیے اب نئی مشینیں استعمال کی جائیں گی اور انگوٹھے کی ویری فیکیشن کے لیے استعمال کی جانے والی مشینوں کی تعداد کم کی جائے گی تاکہ جرائم پیشہ افراد انہیں استعمال نہ کر سکیں۔ اس وقت ملک بھر میں تقریبا 14 ہزار ایسی مشینیں زیر استعمال ہیں۔
ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع میں پیش کیے گئے اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ چار سالوں میں سائبر کرائمز میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے اور اس کی ایک وجہ موبائل فون سموں کا غلط استعمال بھی ہے۔
گزشتہ جعمرات کو ایف آئی اے کی طرف سے قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا تھا کہ سال 2019 میں جنسی استحصال اور انعامی رقم نکلنے کے جعلی پیغامات سمیت سائبر کرائم سے متعلقہ 56 ہزار 696 شکایات موصول ہوئیں جو 2018 کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہیں۔
بریفنگ کے دوران کمیٹی کے ارکان نے ایف آئی اے حکام سے استفسار کیا تھا کہ انعامی رقم کے جعلی میسجز اور فون کالز کرنے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟
مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے رکن کمیٹی ریاض پیرزادہ نے بتایا کہ کسی شخص نے چیئرمین نیب بن کر ان سے رابطہ کیا اور بات کرنا چاہی، جب اس شخص کو اپنے سرکاری نمبر سے رابطہ کرنے کو کہا گیا تو اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ فوج کے افسران کے نام سے بھی لوگوں کو جعلی کالز کی جاتی ہیں۔
ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ وقار چوہان نے کمیٹی کو بتایا تھا کہ جعلی انعامی رقم نکلنے کے میسجز اور کال کرنے والے نمبرز کے ڈیٹا تک رسائی تو مل جاتی ہے لیکن جب ایسے نمبرز کا کھوج لگایا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اکثر نمبرز دیہات میں کسی بوڑھی خاتون یا ادھیڑ عمر شخص کے نام پر رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔
ایف آئی اے حکام نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ جو لوگ یہ نمبرز استعمال کرتے ہیں ان تک رسائی کے لیے ایف آئی اے کے پاس "لوکیٹرز" کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ کوئی نمبر کس جگہ سے استعمال ہو رہا ہے اس مقام تک رسائی حاصل کرنے کی سہولت آئی ایس آئی، آئی بی اور پنجاب پولیس کے پاس موجود ہے۔
حکام کے مطابق محدود وسائل کے باعث ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے پاس کال کرنے والے کی درست جگہ کا تعین کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
خیال رہے کہ پاکستان میں مختلف نمبرز سے موبائل فون صارفین کو انعامی رقم نکلنے کے پیغامات اکثر موصول ہوتے رہتے ہیں۔
Comments are closed on this story.