بھارت میں مردوں کی لازمی "نس بندی" کا نوٹیفیکیشن
وسطی بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کی حکومت نے گیارہ فروری کو ایک نوٹیفیکشین جاری کیا جس میں حکام کو کہا گیا تھا کہ وہ صحت سے متعلق ادارے کے عملے میں ایسے افراد کی نشاندہی کریں جنہوں نے کسی بھی شخص کی نس بندی نہیں کی۔
حکام کو یہ ہدایت بھی کی گئی کہ وہ عملے کے ایسے افراد سے کہیں کہ وہ بہرصورت اکتیس مارچ تک کم از کم ایک مرد کو نس بندی کے لیے قائل کریں بصورت دیگر ان کی تنخواہ روک دی جائے گی یا انہیں جبری طور پر ریٹائر کر دیا جائے گا۔
مدھیہ پردیش کے نیشنل ہیلتھ مشن کے مطابق ریاست میں رواں مالی سال کے دوسری چوتھائی میں 3757 افراد کی نس بندی کی گئی تھی۔
ریاست میں کانگریس کی حکومت ہے جب کہ بھارتیہ جنتا پارٹی حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ بی جے پی کے ترجمان نے حکومتی نوٹس کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عملے کے ارکان کو ہراساں کرنا ناقابل قبول ہے۔
شدید تنقید کے بعد ریاست کی وزیر صحت تلسی سلاوت نے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو بتایا کہ نوٹیفیکیشن میں مناسب الفاظ نہیں چنے گئے تھے اس لیے اسے منسوخ کر کے متعلقہ ڈائریکٹر کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا، 'کسی کی جبری نس بندی نہیں کی جائے گی، کسی کو نوکری سے نہیں نکالا جائے گا، ہم صرف آگاہی مہم شروع کر رہے ہیں۔'
واضح رہے کہ سن 1970 کی دہائی میں بھارت میں ایمرجنسی نافذ تھی۔ اس وقت اندرا گاندھی بھارتی وزیر اعظم اور ان کے بیٹے سنجے گاندھی ان کے مشیر تھے۔
سنجے گاندھی نے ملک بھر میں نس بندی مہم شروع کر دی تھی اور ایک برس میں 62 لاکھ افراد کی نس بندی کی گئی تھی۔ نس بندی کے ناقص طریقہ آپریشن کے باعث کئی مرد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس وقت مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ کمل ناتھ ہیں جو سنجے گاندھی کے قریبی ساتھی بھی تھے۔ بی جے پی نے اسی وجہ سے حکومتی نوٹیفیکیشن کو سن ستر کے جبری نس بندی پروگرام جیسا قرار دیا۔
آبادی کے لحاظ سے بھارت دنیا میں دوسرا بڑا ملک ہے اور آبادی میں تیزی سے اضافے کے باعث سن 2030 تک وہ چین کو پیچھے چھوڑ کر سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔
Comments are closed on this story.