پاک فضائیہ کا پُراسرار پائلٹ "8 پاس چارلی"، جس نے بھارت کی نیندیں آج تک اڑائی ہوئی ہیں
یہ ایک ایسے گمنام لیجنڈ پاکستانی بمبار پائلٹ کی داستان ہے جو ایک ہیرو تو بنا لیکن آج تک کوئی اس کا نام نہ جان سکا اور یہ ہیرو تاریخ میں ہی دفن ہو گیا۔
1965 میں پاک بھارت جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کے بی 57 بمبار طیاروں نے رات کے اندھیرے میں بھارتی ہوائی اڈوں پر ہلہ بول دیا۔ بمبار طیارے عام طور پر بہت بھاری بھرکم ہوتے ہیں اور وہ دشمن کی توپوں اور طیاروں سے بچنے کے لیے زیادہ پھرتی نہیں دکھا پاتے، اس لیے ان کے حملے رات کے اندھیرے میں ہوتے اور یہ طیارے زمین کے پاس پاس ریڈار کی نگاہ سے بچ کر اڑتے ہوئے اپنے ہدف تک پہنچتے۔
ہدف پر پہنچ کر پائلٹ یکدم طیارہ اوپر کھینچ کر ہدف پر ڈائیو کرتے اور ایک ہی حملے میں اپنے تمام بم گراتے ہوئے دشمن کے ہوشیار ہونے سے پہلے اس کی توپوں کی رینج سے باہر ہو جاتے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستانی بی 57 طیارے 500 پاؤنڈ کے آٹھ بم لے کر جاتے تھے اور اسی طریقہ کو فالو کرتے ہوئے ایک ہی حملے میں آٹھوں بم گراتے ہوئے آگے نکل جاتے تھے۔ لیکن ایسے حملے میں لازمی نہیں ہوتا تھا کہ سارے بم ہی نشانے پر گریں۔ اکثر ایسا ہوتا کہ دو بم ایک ہی ٹارگٹ پر جا گرتے، جس کی وجہ سے ایکوریسی کم رہتی تھی۔ مگر یہ حملہ کرنے کا انتہائی محفوظ طریقہ تھا۔
لیکن بھارتیوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب جنگ کی پہلی رات آدم پور ائیر بیس پر ایک اکیلے بی 57 طیارے نے حملہ کیا۔ بھارتی نہیں جانتے تھے کہ اس طیارے کا پائلٹ کوئی عام شخص نہیں۔ طیارہ پہلے غوطے میں آیا اور صرف ایک بم گرا کر آگے بڑھ گیا۔
بھارتیوں کا پہلا ری ایکشن یہی تھا کہ باقی بم کسی خرابی کی وجہ سے نہیں گر سکے۔ پر وہ ششدر رہ گئے جب بمبار طیارہ دوبارہ گھوم کر واپس آیا۔ اس نے پھر غوطہ لگایا اور ایک اور بم تاک کر ایک اور نشانے پر گرا کر آگے نکل گیا۔
اس دوران بھارتی طیارہ شکن توپوں نے ہوا میں گولیوں کا جال بن دیا تھا، طیارہ پھر واپس آیا ایک بم ایک اور نشانے پر انتہائی ایکوریسی سے گرایا اور آگے نکل گیا۔ یوں اس بمبار طیارے نے ہر ایک بم کو گرانے کے لیے الگ سے واپس آکر غوطہ لگایا اور بم کو پورے غورو فکر کے ساتھ تاک کر نشانے پر پھینکا۔
اس طرح اس نے اپنی جان کو خطرے میں ضرور ڈالا تھا لیکن اس کے آٹھوں بم آٹھ انتہائی اہم ہدف تباہ کر چکے تھے یوں اس کی ایکوریسی 100 فیصد رہی تھی۔
اس حملے کے بعد بھارتیوں کی جانب سے اس بمبار پائلٹ کو "ایٹ پاس چارلی" (8 Pass Charlie) کا نام دیا گیا۔
پوری جنگ کے دوران "ایٹ پاس چارلی" مختلف اڈوں پر حملے کرتا رہا۔ وہ ہمیشہ اکیلا آتا تھا اور پہلے بم کے ساتھ ہی وہ بھارتیوں کو کھلا چیلنج دیتا کہ میں نے ابھی سات چکر اور لگانے ہیں تم سے جو ہوتا ہے کر کے دیکھ لو، یہ اس پائلٹ کی مہارت کی انتہا تھی کہ کبھی کسی طیارہ شکن گن کی گولی اسے چھو بھی نہیں پائی۔
دشمن کو دھوکے میں ڈالنے کے لیے ایٹ پاس چارلی ایک انوکھا کام کیا کرتا تھا۔ اندھیری رات میں طیارہ تو دکھائی دیتا نہیں تھا تو دشمن کے توپچی طیارے کی آواز سن کر اندازہ لگاتے تھے کہ طیارہ کس جانب سے آ رہا ہے۔
ان توپچیوں کو پریشان کرنے کے لیے غوطہ لگاتے وقت چارلی اپنے طیارے کا انجن بند کر دیتا۔ اگرچہ اس کی وجہ سے طیارے کو سنبھالنا بہت مشکل ہو جاتا لیکن بھارتی توپچیوں کو طیارے کے پتہ اس وقت چلتا جب وہ بم گرا چکا ہوتا اور اس کے بعد وہ انجن آن کر کے پلک جھپکتے میں ان کی رینج سے باہر نکل چکا ہوتا تھا۔
ایک بھارتی پائلٹ "پیڈی ارل" (Earl Paddy) کے ایٹ پاس چارلی کے بارے میں الفاظ یہ ہیں 'میں اس پاکستانی بمبار پائلٹ کے لیے انتہائی عزت کے جذبات رکھتا ہوں جسے ہماری زندگیوں کا سکون برباد کرنا انتہائی پسند تھا۔ ایٹ پاس چارلی ایک لیجنڈ تھا، لیکن اس کی یہ عادت بہت بری تھی کہ وہ چاند نکلنے کے ٹھیک 30 منٹ بعد اپنے ہدف پر پہنچ جاتا۔ عین اس وقت جب ہم اپنے پہلے جام ختم کررہے ہوتے تھے۔ وہ ایک اونچے ترین درجے کا انتہائی پروفیشنل پائلٹ تھا۔ اپنے حملے کی سمت چھپانے کے لیے وہ غوطہ لگانے سے پہلے انجن بند کر دیتا اور جب تک توپچی فائر کھولتے وہ پھٹتے گولوں کی چھتری سے نیچے آچکا ہوتا تھا اور بم گرانے کے بعد وہ انجن کو فل پاور پر کرکے گولیوں کی رینج سے باہر نکل جاتا۔'
لیکن اپنے دشمنوں کی جانب سے ایٹ پاس چارلی کا نام پانے والا یہ پائلٹ کبھی منظر عام پر نہیں آیا۔ البتہ چند محققین کے خیال میں یہ جانباز پاک فضائیہ کی "دی بینڈٹس" (The Bandits)نامی اسکوارڈن نمبر 7 کے اسکوارڈن لیڈر الطاف شیخ تھے، جبکہ دوسروں کا اندازہ ہے کہ یہ اسکوارڈن لیڈر نجیب اے خان یا پھر ونگ کمانڈر علوی اور ان کے نیوی گیٹر فلائٹ لیفٹیننٹ ایم علی شاہ تھے۔
لیکم قوی امکان یہی ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ ونگ کمانڈر نجیب اے خان ہی تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج کوئی نہیں جانتا کہ یہ عظیم پائلٹ کون تھا۔ ہاں سب کو یہ ضرور یاد ہے کہ کوئی تھا جسے دشمن کا سکون برباد کرنے میں عجیب سا مزہ آتا تھا۔
Comments are closed on this story.