Aaj News

منگل, دسمبر 24, 2024  
21 Jumada Al-Akhirah 1446  

'جو لوگ آئی ایم ایف کی راہداریوں میں نہیں گھس سکتے وہ تنقید کررہے ہیں'

اپ ڈیٹ 12 فروری 2020 02:41pm
مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ- فائل فوٹو

اسلام آباد: مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ جو لوگ آئی ایم ایف کی راہداریوں میں نہیں گھس سکتے وہ آئی ایم ایف پر تنقید کررہے ہیں۔

مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات میں پاکستانی ٹیم کو آئی ایم ایف کا نمائندہ کہا گیا جس پر افسوس ہوا، پاکستان کو رضا باقر پہ فخر ہونا چاہیے، گورنر اسٹیٹ بینک بہت قابل شخص ہیں جو ایمانداری سے آئی ایم ایف میں تعینات ہوئے، انہوں نے ملک کے لیے آئی ایم ایف کی نوکری کو ٹھکرایا.

وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف میں رکن قومی اسمبلی کا بندہ ہونے پر نوکری نہیں ملتی، جو لوگ آئی ایم ایف کی راہداریوں میں نہیں گھس سکتے وہ اس کے بڑے بڑے عہدے داروں پر تنقید کر رہے ہیں۔

حفیظ شیخ نے آئی ایم ایف کے پاس جانے پر حکومت پر ہونے والی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 2008 اور 2013 کی حکومتیں بھی آئی ایم ایف کے پاس گئی تھیں، انہیں ہم پر تنقید زیب نہیں دیتی، آئی ایم ایف کے پاس خوشی سے نہیں جاتے، حالات مجبور کرتے ہیں۔

مشیر خزانہ کا کہنا تھا المیہ یہ ہے کہ 72 سال میں ملک کا ایک بھی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا، ہم ٹیکس اکٹھا کرنے کے نظام میں کامیاب نہیں ہو سکے، ہم دیکھتے ہیں لوگوں کی امیدیں پوری نہیں ہوئیں، اگر ہمیں ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ کھڑا ہونا ہے تو ہمیں لوگوں پر خرچ کرنا ہوگا، یہ نہیں ہو سکتا کہ لوگ پسماندہ ہوں اور ملک ترقی یافتہ ہو۔

عبدالحفیظ شیخ نے مالی بحران کو ٹالنے کی کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سویلین حکومت کے بجٹ میں 40 ارب روپے کمی کی گئی، فوج کا بجٹ منجمد کرنے میں آرمی چیف جنرل باجوہ نے حکومت کی حمایت کی، ایوان صدر وزیر اعظم آفس کے اخراجات کم کئے گئے، کوئی حکومت ایسے سخت فیصلے نہیں کر سکتی تھی لیکن ہم نے یہ کام کیے، سخت بجٹ دیا اور سخت اہداف رکھے۔

حفیظ شیخ کا کہنا تھا ترقی کرنی ہے تو اپنے لوگوں پر دھیان دینا ہوگا، ہمیں طے کرنا ہے ملک کو آگے لے کر جانا ہے یا نہیں، معاشی استحکام کیلئے حکومت کام کر رہی ہے، کوشش کروں گا سیاسی بحث اور پوائنٹ سکورنگ نہ کروں، ترقی یافتہ ممالک نے تجارت کیلئے ماحول پیدا کیا، 1960 کے دوران معیشت میں بہتری آئی جو 4 سال میں ختم ہوگئی۔

مشیر خزانہ نے مزید کہا کہ فیصلہ ہوا تھا ایکس چینج ریٹ کو فکس رکھنا ہے، وزیراعظم کتنا بھی طاقتور ہو کرنسی کی قدر کو حکم سے نہیں روک سکتا، کرنسی کی قدر میں کمی روکنے کیلئے ڈالر پھونکے گئے، 2 ہزار 300 ارب روپے آمدن سے زیادہ خرچ کیے گئے، بحران کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں ڈالر نہیں، ہم نے قرض بھی ڈالرز میں لیے۔

حفیظ شیخ کا کہنا تھا سابق حکومت میں ایکسپورٹ کی گروتھ زیرو تھی، 95 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرض اور سالانہ 20 ارب کا بوجھ تھا، جاری کھاتوں کا خسارہ ڈالر اور زرمبادلہ کے ذخائر بتاتا ہے، اقدامات نہ اٹھائے تو ہم بھی ناکام ہو جائیں گے، ملکی زراعت نے بھی اس انداز میں ترقی نہیں کی، زراعت کا گروتھ ریٹ بھی زیرو ہے۔

مشیر خزانہ نے کہا توانائی کا شعبہ تباہی کا باعث بن سکتا ہے، ادارے بل اکٹھے کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہے، ہم بحران میں داخل ہو چکے تھے، ملک دیوالیہ نظر آرہا تھا، ہمیں کوئی قرض دینے کو تیار نہیں تھا، پہلی ترجیح تھی کہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچائیں، سعودی عرب سے قسطوں میں تیل خریدا۔

حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ قدرتی بات ہے دقتیں ہیں جن میں سے ایک قیمتوں میں اضافہ ہے، مہنگائی کی وجوہات کو دیکھنا ہوگا، باہر جو چیزیں آتی ہیں ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، اس میں سبزیوں کا آئل خاص طور پر تھا، کچھ چیزیں ہم باہر سے منگواتے ہیں، ان کی قیمتیں بڑھیں، پچھلے تین سال میں اسٹیٹ بینک سے جوقرض لیا گیا اس سے بھی مہنگائی میں اضافہ ہوا، بجلی کی قیمت جان بوجھ کر نہیں بڑھائی گئی اس وجہ سے بھی اضافہ ہوا، کچھ کھانے پینے کی چیزوں میں اضافہ سیزنل تھا، کچھ چیزیں انڈیا سے آتی ہیں اور ان سے ہمارے تعلقات اچھے نہییں، مہنگائی کے معاملے میں انتظامی لحاظ سے بھی بہتر کوآرڈینیشن کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ کے مسائل کے باوجود قیمتیں کم کرنے کی کوشش کررہی ہیں اگلے ایک دوہ ماہ میں قیمتیں مستحکم ہوں گی۔