ایک اینٹ سے 8 اینٹوں میں بدل جانے والا زندہ سیمنٹ
کولاراڈو: ماہرین ایسا اسمارٹ سیمنٹ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس سے سیمنٹ سازی اور تعمیراتی صنعت کو ماحول دوست بنایا جاسکتا ہے۔
بولڈر میں واقع کولاراڈو یونیورسٹی کے پروفیسر ول سروبر اور ساتھیوں نے "سائنی کوکس" نامی ایک قسم کے بیکٹیریا کو کئی اشکال کی اینٹیں بنانے میں استعمال کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس کے لیے پہلے ریت، جیلاٹن اور بعض غذائی اجزا والے مائع میں بیکٹیریا شامل کئے گئے۔ اس کے بعد جیسے ہی اس ملغوبے کو حرارت اور سورج کی روشنی دی گئی تو بیکٹیریا نے ریت کے ذرات پر کیلشیئم کاربونیٹ کا تہیں کچھ ایسے چڑھادیں جیسے سمندری گھونگے اپنے خول کے گرد جماتے رہتے ہیں۔
اگلے مرحلے پرجیلاٹن کی وجہ سے پورا مسالہ ٹھنڈا ہونے پر ٹھوس بن جاتا ہے۔ اس کے بعد مزید خشک کرکے اینٹ زیادہ سخت بنائی جاتی ہے جس میں چند گھنٹے لگتے ہیں۔
اس طرح بننے والا مٹیریل عین کنکریٹ کی ہی طرح ہوتا ہے جس میں ریت، بجری اور سیمنٹ میں پانی ملاکر اسے مضبوط کیا جاتا ہے۔
لیکن یہ آمیزہ طبعی طور پر تھوڑا کمزور ہوتا ہے، یعنی جس طرح سیمنٹ کے بغیر ریتی اور بجری کی کمزور اینٹ بنتی ہے عین اسی طرح کی اینٹ وجود میں آتی ہے اور باقاعدہ مضبوط اینٹوں سے اس کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔
تاہم اس عمل میں ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کی مکمل طور پر خشک ہونے کے بعد بیکٹیریا والا سیمنٹ ازخود بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔ بالفرض اس سے بنائی ہوئی اینٹ پر اگر اضافی ریت اور غذائی اجزا والا محلول ڈالا جائے تو دھیرے دھیرے اینٹ بڑھنا شروع ہوجاتی ہے اور کچھ عرصے میں ایک سے دو اینٹیں وجود میں آسکتی ہیں۔ ماہرین نے تجربہ گاہ میں ایک سے آٹھ اینٹیں بنانے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔
پروفیسر وِل کہتے ہیں کہ اس عمل سے کم توانائی استعمال کرتے ہوئے سیمنٹ بنانے میں مدد ملے گی۔ ماحول دوست سیمنٹ ضیائی تالیف (فوٹوسنتھیسز) عمل کےتحت کام کرتا ہے۔ اس عمل سے سیمنٹ ماحول کے لیے موزوں بن سکے گا کیونکہ یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی صنعت ہے جہاں سب سے زیادہ پانی اور زمینی وسائل صرف ہوتے ہیں۔
اب ماہرین امریکی محکمہ دفاع کے لیے ایک پائلٹ پلانٹ بنانے پر باہمی غور کررہے ہیں۔
Comments are closed on this story.