Aaj News

جمعرات, دسمبر 26, 2024  
24 Jumada Al-Akhirah 1446  

خیبر پختونخوا: کم شرح خواندگی پر تشویش کا اظہار

شائع 06 جنوری 2020 06:43pm

خیبرپختونخوا اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر عنایت اللہ نے کہاکہ اکنامک سروے رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا کی شرحِ خواندگی بلوچستان سے بھی کم ہے، حکومت ہر سال تعلیم کے محکمہ پر اربوں روپے خرچ کر رہی ہے لیکن شرحِ خواندگی اور داخلہ کم ہو رہی ہے جس کے متعلق ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔

صوبائی کابینہ میں ردودبدل میں خواتین کو نظر انداز کرنے پر حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے خواتین نے کابینہ میں خواتین کی نمائندگی کا مطالبہ کردیا۔

 خیبر پختوںخوا اسمبلی کے اجلاس کے دوران وقفہ سوالات کے دوران جماعت اسلامی کے عنایت اللہ نے کہا کہ اکنامک سروے رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا کی شرحِ خواندگی بلوچستان سے بھی کم ہے ۔ 2013 میں شرحِ داخلہ 69فیصد تھا لیکن 2017 میں بڑھنے کی بجائے شرحِ داخلہ 68فیصد ہو گیا ۔ حکومت ہر سال تعلیم کے محکمہ پر اربوں روپے خرچ کر رہی ہے لیکن شرحِ خواندگی اور داخلہ کم ہو رہی ہے جس کے متعلق ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔

انہوں نے سوال کو قائمہ کمیٹی بھیجنے پراصرار کیا تاہم حکومت کی جانب سے سابق مشیر برائے تعلیم ضیا اللہ بنگش نے بتایا کہ قبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد خیبر پختونخوا کی بچوں کی شرحِ داخلہ کم نظر آ رہی ہے ۔ اس سال 18 لاکھ بچوں کو سکول میں داخل کرنے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے ۔ شرحِ داخلہ میں اضافہ ہو گا ۔

وقفہ سوالات کے دوران عنایت اللہ نے کہا کہ گزشتہ 17 ماہ کے دوران پولیس کے تین سربراہ تبدیل ہو چکے ہیں ۔ اسی طرح چھ سالوں کے دوران محکمہ توانائی کے گیارہ انتظامی سیکرٹریز تبدیل کئے گئے ہیں ۔ سرکاری ملازم کو جب تک دورانِ ملازمت تنگ کیا جاتا ہے اور انہیں اپنی تعیناتی کا پتہ نہیں ہوتا وہ خدمات سر انجام نہیں دے سکتا ۔

خیبر پختونخوا سمبلی میں اپوزیشن اراکین نے کابینہ میں خواتین کی نمائندگی کا مطالبہ کر دیا ۔

حزبِ اختلاف کے اراکین نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت محکمہ تعلیم پر اربوں روپے خرچ کر رہی ہے لیکن شرحِ داخلہ بڑھنے کی بجائے کم ہو رہا ہے ۔ پختونخوا کی شرحِ خواندگی بلوچستان سے بھی کم ہے ۔ پی پی پی کی نگہت اورکزئی نے نکتہ اعتراض پر بتایا کہ کیا تحریک انصاف کو انتخابات کے دوران صرف مردوں نے ووٹ دیئے ہیں کیونکہ خواتین کو کابینہ میں نمائندگی سے محروم رکھا جا رہا ہے ۔ کیا اس پورے ایوان میں ایک بھی خاتون کابینہ کی رکن بننے کی اہل نہیں ۔ صوبائی حکومت اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرتے ہوئے کابینہ میں ایک خاتون وزیر، مشیر اور معاونِ خصوصی کو شامل کیا جائے ۔

اپوزیشن لیڈر اکرم درانی نے کہا کہ سرکاری ملازمین کے تبادلوں کا اختیار حکومت وقت کے پاس ضرور ہے لیکن اس متعلق واضح پالیسی ہونی چاہئے ۔

معاونِ خصوصی برائے محکمہ بلدیات کامران بنگش نے کہا کہ انتظامی سیکرٹریوں کے تبادلے حکومت کے لئے معمول کا کام ہوتا ہے ۔ حکومت اپنا ایجنڈا دیتی ہے اور انتظامی افسران اس پر عمل در آمد کرتے ہیں ۔ سروس ڈیلوری کے لئے حکومت وقت سرکاری افسران کے تبادلے کرتی رہتی ہے، اس سے کارکردگی متاثر نہیں ہوتی ۔

اسمبلی اجلاس کے دوران سوالات کے جوابات نہ ملنے پر اپوزیشن کی خواتین اراکین نے ایوان سے واک آوٹ کیا جنہیں بعد ازاں منا کر واپس لایا گیا ۔