Aaj News

ہفتہ, نومبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Awwal 1446  

کشمیر میں بھارتی مظالم دکھانے پر فیس بک نے ریڈیو پاکستان کی لائیو اسٹریمنگ بند کردی

شائع 31 دسمبر 2019 03:43am

اسلام آباد: مقبوضہ کشمیر میں عوام پر بھارتی ظلم و ستم اور جبر کو نیوز بلیٹن میں دکھانے پر فیس بک نے پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی لائیو اسٹریمنگ کو بلاک کردیا ہے۔

ریڈیو پاکستان نے رپورٹ کیا کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک نے جس مواد کی بنیاد پر اسٹریمنگ کو بند کرنے کا اقدام اٹھایا ان کے اسکرین شاٹس ریڈیو پاکستان کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ جس مواد پر پابندی لگائی گئی ہے اس میں رواں سال جولائی میں نوجوان لیڈر برہان وانی کی برسی کی کوریج اور حزب المجاہدین کے کمانڈر ذاکر موسیٰ کی موت کے بعد بھارت کی جانب سے لگائے گئے کرفیو کے واقعات کو رپورٹ کرنا شامل ہے۔

تاہم فیس بک کی جانب سے لائیو اسٹریمنگ بلاک کیے جانے کے بعد پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن نے متبادل انتظامات کرتے ہوئے ریڈیو پاکستان کے بلیٹن یوٹیوب پر نشر کرنے شروع کردیے ہیں۔

معاون خصوصی برائے اطلاعات ونشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کو اجاگر کرنے پر فیس بک کی جانب سے ریڈیو پاکستان کی خبروں کی لائیو سٹریمنگ بند کئے جانے کو بنیادی  انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

وہ اسلام آباد میں قائد اعظم محمد علی جناح کی سالگرہ کے حوالے سے تصویری نمائش کے افتتاح کے بعد صحافیوں سے  گفتگو کررہی تھیں۔

 معاون خصوصی نے کہا کہ حکومت فیس بک پرریڈیو پاکستان کی خبروں کی لائیو سٹریمنگ کی بحالی کے لیے بھرپور کوششیں کرے گی۔

کیا فیس بک کا یہ اقدام سیاسی ہے؟ اور کیا فیس بک کے پاس ایسا کرنے کا اختيار ہے؟

ان سوالات کا جواب دیتے ہوئے ڈیجیٹل رائٹس اور سائبر سکیورٹی کے ماہر اسامہ خلجی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''فیس بک ایک امریکی کمپنی ہے، اس لیے اس پر امریکی قوانین کا ادراک ہوتا ہے۔ امریکا نے حزب المجاہدین کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔ لہٰذا جب کسی پوسٹ میں اس تنظیم یا اس کے رہنماؤں کا ذکر ہوتا ہے، تو فیس بک پر اسے بلاک کر دیا جاتا ہے۔ اس لیے ریڈیو پاکستان کی خبروں کی لائیو اسٹریمنگ کو بلاک کیا گیا۔"

اسامہ کی رائے میں فیس بک کی جانب سے يہ قدم ايک پیچیدہ معاملہ ہے کیونکہ امریکا میں اظہار رائے کے حق پر کافی زور ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''کشمیر میں بھارت کی سرگرمیوں کو رپورٹ کیا جانا چاہیے، یہ وہی معاملہ ہے کہ کسی ایک لیے جو دہشت گرد ہے، وہ کسی اور کے لیے حریت پسند ہے۔"

اسی موضوع پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے "میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی" کی شریک بانی صدف بیگ کا کہنا تھا، ''فیس بک کا یہ اقدام اس تنظیم کے اظہار رائے سے متعلق رويے پر سوال اٹھاتا ہے۔ فیس بک دعویٰ کرتا ہے وہ آزادی اظہار پر یقین رکھتا ہے لیکن اس کے کئی فیصلے ثابت کرتے ہیں کہ وہ معتصبانہ رویہ اختیار رکھے ہوئے ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت فیس بک کے لیے ایک بڑی منڈی ہے۔"

صدف کہتی ہیں کہ حکومتوں اور سماجی کارکنان کو چاہیے کہ وہ فیس بک سے شفافیت کا مطالبہ جاری رکھیں لیکن بدقسمتی سے فیس بک سے سوال کرنے کے بجائے پاکستان جیسے ملک کی حکومتیں اس تنظیم کی پالیسیوں کو قبول کر لیتی ہیں کیوں کہ زیادہ شفافیت خود انہی حکومتوں کے لیے بھی مشکل پیدا کر دیتی ہے۔

صدف کا کہنا ہے، ''اگر کشمیر پر رپورٹنگ سے متعلق فیس بک پر معنی خیز دباؤ ڈالنا ہے، تو حکومت کو اس تنظیم سے شفافیت کا زور دار مطالبہ کرنا ہوگا۔"

یاد رہے کہ 2016 میں فیس بک کو اس وقت عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب اس نے برہانی وانی کی شہادت کے واقعات رپورٹ کرنے والی درجنوں پوسٹوں کو بلاک کردیا تھا۔

مقبوضہ کشمیر کے حالات سے آگاہ کرنے والی درجنوں تصاویر، ویڈیوز اور حتیٰ کہ اس حوالے سے رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کے ساتھ ساتھ انفرادی پیجز کو بھی بلاک کردیا گیا تھا۔

عرب میڈیا کے مطابق حال ہی میں ٹوئٹر کو بھی اس وقت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے والے سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی سینکڑوں ٹوئٹس کو ڈیلیٹ کردیا گیا تھا۔

الجزیرہ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 2017 سے اب تک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کو دنیا کے سامنے لانے والی 10 لاکھ سے زائد ٹوئٹس کو ڈیلیٹ کیا جا چکا ہے۔

رواں سال اگست میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل آصف غفور نے بتایا تھا کہ کشمیر کی حمایت اور بھارتی بربریت کو منظر عام پر لانے والے پاکستانی سوشل میڈیا پیجز کی مبینہ معطلی پر پاکستان نے فیس بک اور ٹوئٹر سے احتجاج کرتے ہوئے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔عالمی سطح پر فیس بک کی جانب سے 17 ہزار 807 مواد پابندی کا شکار ہوا جس میں جنوری سے جولائی 2019 تک 31 فیصد مواد پاکستان کی جانب سے شائع کی گیا تھا۔

2019 کے پہلی ششماہی میں فیس بک کی جانب سے پاکستان میں 5 ہزار 690 مواد پابندی کا شکار ہوئے، جبکہ اس کے مقابلے میں 2018 کی دوسری ششماہی میں 4ہزار 174 اشیا کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔