بھارت: متنازع شہریت کا قانون، گنگولی کی بیٹی بھی بول پڑیں
بھارت میں متنازع سٹیزن شپ کے قانون کیخلاف بے چینی میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے ، ایسے میں جب معروف کرکٹر ساروو گنگولی نے خاموشی اختیار کررکھی ہے ، تب ان کی بیٹی ثناء گنگولی نے بھارت کے خاتم کے عنوان سے ایک ناول سے اقتباس اپنے انسٹاگرام پر شیئر کیا ہے ،
اقتباس کے مطابق ہر فاشسٹ حکومت کو آگے بڑھنے کیلئے فرقوں یا گروپوں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ فاشسٹ حکومت اپنے ایجنڈے کو پہلے ایک یا دو گروپوں سے آگے بڑھاتی ہے لیکن پھر یہ یہاں نہیں تھمتی کیونکہ نفرت کی بنیاد پر بننے والی تحریک کو برقرار رکھنے کیلئے خوف پیدا رکھنا ناگزیر ہوتا ہے۔
اقتباس کے مطابق وہ لوگ جو کہ مسلمان اور عیسائی نہیں ہیں اور خود کو محفوظ سمجھ رہیں ، دراصل وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں ، کیونکہ سنگھ کی جانب سے بائیں بازو کے تاریخ دانوں اور مغرب کے دلدادہ نوجوان نسل کو پہلے ہی ہدف کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
بعد میں پھر اسکرٹس پہننے والی خواتین ، گوشت کھانے ، شراب پینے والے لوگ اور غیر ملکی فلمیں دیکھنے والو کو نفرت کا نشانہ بنایا جائیگا۔
اگرچہ کہ ساروو گنگولی کی اٹھارہ سالہ بیٹی کی جانب سے متنازع شہریت کے قانون کیخلاف آواز اٹھائی گئی ہے لیکن ساروو گنگولی سمیت دیگر ممتاز کھلاڑیوں کی جانب سے اس حوالے سے خاموشی اختیار رکھی گئی ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب معروف تدرییسی ادارے جامعہ میں آنسو گیس کے استعمال کیخلاف طالبعلم سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔
تاہم ایسے وقت میں معروف کھلاڑی عرفان پٹھان نے ضرور تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن وریندر سہواگ جوکہ جامعہ میں زیر تعلیم بھی رہے ہیں اور ٹوئٹر پر بھی کافی سرگرم نظر آتے ہیں ، انہوں نے بھی اس معاملے پر اپنا ردعمل دینے سے گریز کیا ہے۔
BCCI President @SGanguly99's daughter Sana Ganguly just won my heart by this post. Incredible maturity from an 18 year old. pic.twitter.com/wQN5eyfY6G
— Aparna (@chhuti_is) December 17, 2019
Comments are closed on this story.