' مجھے ایک گھناؤنی سازش کے تحت سزائے موت سنائی گئی'
دوحہ: افغان طالبان اور امریکا کے درمیان اعتماد سازی کے لیے مغربی قیدیوں کی رہائی کے بدلے امریکا کی قید سے رہائی پانے والے طالبان رہنما انس حقانی نے رہائی کے بعد اپنے پہلے انٹرويو ميں قيد کے حوالے سے بتایا کہ 2014 ميں ايک امريکی فوجی کی رہائی کے بدلے جب پانچ طالبان قيديوں کو رہا کيا گيا تو ميں بھی ان سے ملاقات کے لیے دوحہ گيا۔ کيوںکہ رہائی پانے والوں ميں سے ايک مولوی محمد نبی عمری ميرے والد کے بہت قريبی دوست تھے۔ ان سے ملاقات کے بعد واپسی پر امريکيوں نے مجھے گرفتار کر ليا اور افغانستان منتقل کر ديا۔
انس حقانی کے مطابق، انہیں کابل ميں ساڑھے آٹھ ماہ جيل ميں گزارنے کے بعد بگرام جيل ميں ڈال ديا گيا جہاں انہوں نے مزيد چار سال گزارے۔
امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق انس حقانی کا کہنا تھا کہ انہیں ایک گھناؤنی سازش کے تحت سزائے موت سنائی گئی تھی۔ ان کے بقول، انہیں اپنی سزا سن کر انتہائی تعجب ہوا کہ جب انہوں نے کوئی بھی غير قانونی کام نہیں کیا تو پھر اتنی بڑی سزا کس بنياد پر؟
ان کے بقول، 'ميں تعجب کا شکار ہوں کہ افغانستان ميں ايسے ادارے بھی ہيں کہ جو اپنے شہريوں کو بغير کسی جرم اور بغير شواہد پر سزائے موت تک سناتے ہيں'۔
افغانستان کی بگرام جيل کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جيل کی زندگی کبھی آسان نہیں ہوتی۔ ميں نے بھی دوسرے قيديوں کی طرح بہت سی مشکلات کا سامنا کیا۔ان کے مطابق وہ ان تکالیف کو دوہرانا نہیں چاہتے، کيوں کہ افغان حکومت اور امريکا کو پتہ ہے کہ وہاں قيديوں کے ساتھ کيا سلوک کيا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چار سال کی مسلسل کوششوں کے بعد ايک دن مجھے اور حافظ عبد الرشيد کو بگرام جيل سے ايک الگ مقام پر لے جايا گيا اور پانچ سال کے طويل وقفے کے بعد قيديوں کے تبادلے کے نتيجے ميں، میں اب دوبارہ قطر ميں ہوں۔
Comments are closed on this story.