Aaj News

جمعہ, دسمبر 27, 2024  
24 Jumada Al-Akhirah 1446  

رحم دلی کا طویل عمری اور بلڈ پریشر میں کمی سےکیا تعلق ہے؟

شائع 13 نومبر 2019 05:51am

ہمیں بچپن سے ہی رحم دلی کا سبق پڑھایا جاتا ہے اور سکھایا جاتا ہے کہ ہمیشہ رحم دلی سے کام لینا چاہئیے، اسلام بھی ہمیں اسی کا سبق دیتا ہے۔

اگرچہ رحم دلی کا تعلق اخلاقیات اور انسانیت سے جوڑا جاتا ہے، لیکن کیا اس کے کوئی طبّی فوائد بھی ہیں؟

برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایک تحقیقی مرکز یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں قائم "بیداری کائینڈنیس انسٹیٹیوٹ" سے منسلک سائنس دانوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ رحم دلی آپ کے لیے اس سے کہیں زیادہ فائدہ مند ہو سکتی ہے اور اس سے آپ کی عمر میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

ادارے کے ڈائریکٹر ڈینیئل فیسلر کہتے ہیں کہ یہ مذاق کی بات نہیں بلکہ ہم اس حوالے سے سائنسی نقطۂ نظر کو سامنے رکھتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے دائرے میں بیٹھ کر رحم دلی رحم دلی نہیں کھیلتے، بلکہ ہم بات کر رہے ہیں نفسیات کی، بیالوجی کی، اور مثبت معاشرتی رابطوں کی۔

ڈینیئل فیسلر نے اپنی تحقیق میں جائزہ لیا کہ دوسرے لوگوں کو رحم دلی سے کام لیتے ہوئے دیکھ کر ہم اپنے اندر یہ جذبہ کیسے بیدار کر سکتے ہیں۔

ان کی تحقیق کا مقصد یہ جاننا تھا کہ وہ کون لوگ ہوتے ہیں جو جنھیں دوسروں کی دیکھا دیکھی رحم دلی جاگ جاتی ہے۔

ڈینیئل فیسلر کے مطابق رحم دلی کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ کے خیالات، جذبات اور عقائد کی جھلک آپ کے ان کاموں میں نظر آنی چاہیے جو آپ دوسروں کی خاطر کرتے ہیں، ایسے کام جو آپ دوسروں کے فائدے کے لیے کرتے ہیں۔ اس قسم کے کام خود اپنے آپ میں رحم دلی کی مثال ہوتے ہیں۔

اس کے برعکس بے رحمی سے مراد ایسے عقائد ہیں جو دوسروں کے لیے ناقابل برادشت ہوتے ہیں، اور آپ کے کام میں دوسروں کی بھلائی کی کوئی قدر نہ ہوتی۔ یہ بے رحمی والی بات ان لوگوں کو سمجھ آ سکتی ہے جن کو سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کا تجربہ ہو چکا ہے، یعنی جب لوگ سوشل میڈیا پر لٹھ لیکر آپ کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔

بیداری فاؤنڈیشن کے روح رواں جینیفر ہیرس اور میتھیو ہیرس کہتے ہیں کہ اس چیز پر تحقیق کرنے کی ضرورت تھی کہ اس جدید دنیا میں رحم دلی کا جذبہ اتنا کم کیوں ہو گیا ہے اور ہم سائنس اور روحانیت کے درمیان اس خلیج کو کیسے پُر کر سکتے ہیں۔

انٹیسٹیوٹ کے ماہرین بشریات اس بات کا مطالعہ کر رہے ہیں کہ لوگوں میں رحم دلی کا جذبہ کیسے پھیلتا ہے۔ ماہرین عمرانیات تحقیق کر رہے ہیں کہ ان لوگوں کو رحم دلی کی جانب کیسے راغب کیا جا سکتا ہے جن کا رویہ بے رحمانہ ہوتا ہے اور ماہرینِ نفسیات اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ رحم دلی سے آپ کا مُوڈ کیسے اچھا ہو جاتا ہے اور ذہنی دباؤ کیسے کم ہو جاتا ہے۔

اس کے علاوہ انسٹیٹیوٹ میں طلباء اور لاس اینجلیس کے علاقے کے ضرورت مند لوگوں کو یہ تربیت بھی دی جاتی ہے کہ وہ کیسے "مائنڈ فُل" بن سکتے ہیں یعنی اپنے ذہن میں احساس پیدا کر سکتے ہیں۔

مسٹر فیسلر کہتے ہیں یہ بات سب جانتے ہیں کہ بُرا ذہنی دباؤ، یعنی ایسی صورت حال جب آپ کوشش کے باجود مشکل حالات کا سامنا نہیں کر پاتے، آپ کی صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس اچھا ذہنی دباؤ وہ دباؤ ہوتا ہے جب آپ کو مشکل کا سامنا ہوتا ہے، لیکن آپ کو اس پر قابو پانے میں اطمینان ملتا ہے، جیسے کسی پہاڑ پر چڑھنا۔

اگر آپ کسی ریستوران جاتے ہیں اور کافی چائے بنانے والی لڑکی یا لڑکا آپ سے مسکرا کے پوچھتا ہے کہ آپ کیسے ہیں، اس سے بھی آپ کی صحت پر بہتر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ رحم دلی کے بارے میں یہ سوچنا کہ آپ دوسروں کے ساتھ کیسے رحم دلی کر سکتے ہیں، اس سے بھی آپ کا بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے۔ اس کے بھی صحت مندانہ اثرات ہوتے ہیں اور آپ کو ذہنی سکون ملتا ہے۔

انسٹیٹیوٹ سے منسلک ماہرین کے علاوہ کولمبیا یونیورسٹی کی ڈاکٹر کیلی ہارڈنگ نے بھی رحم دلی کا مطالعہ کیا ہے جسے انہوں نے کتابی شکل میں "دا ریبٹ افیکٹ" کے عنوان سے شائع کیا ہے۔

ڈاکٹر ہارڈنگ کہتی ہیں کہ رحم دلی کے جذبے سے آپ کے جسم کے دفاعی نظام پر بھی اچھے اثرات ہوتے اور بلڈ پریشر پر بھی۔ اس سے لوگوں کو زیادہ طویل اور بہتر زندگی گزارنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ ایک بڑی حیران کن چیز ہے کیونکہ رحم دلی کی وافر مقدار دستیاب ہے اور آپ اسے (کسی دوا کے برعکس) جتنا چاہیں کھا سکتے ہیں اور اس سے آپ اوور ڈوز کا شکار بھی نہیں ہوتے۔ یہ چیز مفت میں دستیاب ہے۔

ڈاکٹر ہارڈنگ کہتی ہیں کہ ہو سکتا ہے  طب کی دنیا میں ٹیکنالوجی بہتر ہو رہی ہو، لیکن آپ کبھی بھی انسانی ہمدردی کو مشینوں سے نہیں بدل سکتے ہیں۔ آپ کی ذہنی اور جسمانی صحت کے درمیان تعلق نہایت اہم ہوتا ہے۔