Aaj News

ہفتہ, نومبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Awwal 1446  

ڈرامہ سیریل "عہد وفا" میں دکھائی جانے والی اس تصویر کی اصل کہانی

شائع 12 نومبر 2019 06:26am

آئی ایس پی آر اور ایم ڈی پروڈکشنز کے تعاون سے نشر ہونے والا ڈرامہ "عہد وفا" پاکستان بھر میں ناظرین کا پسندیدہ ڈرامہ بن چکا ہے۔

اتوار 10 نومبر  کو نشر ہونے والی ڈرامے کی 8 ویں قسط کے ایک سین میں ایک فوجی افسر کو واضح کرتے دکھایا گیا ہے کہ پاک فوج میں اعزازی تلوار اور آگے بڑھنے کے مواقع صرف فوجیوں کے بچوں تک محدود نہیں ہیں۔

اس سین میں وہ اپنے والدین کی تصویر بھی دکھاتے ہیں جس میں بزرگ مرد اور خاتون بیٹھے ہوتے ہیں۔

ڈان نیوز کے مطابق ڈرامے میں دکھائی جانے والی تصویر میں موجود اس جوڑے کی اصل داستان بھی بہت خاص ہے۔

یہ ضلع چکوال کے قریبی قصبے ڈھڈیال سے تعلق رکھنے والے مظفر خان اور ان کی اہلیہ عائشہ تھے، جن پر ایک فیچر بھی 2015 میں ڈان نیوز میں شائع ہوا تھا۔

مظفر خان چالیس کی دہائی میں برطانوی فوج کے آرڈیننس کور میں بطور اہلکار بھرتی ہوئے اور انہیں دیگر فوجیوں کے ہمراہ برما میں جاپانی فورسز سے لڑنے کے لیے بھیجا گیا۔

برما میں تعیناتی کے دوران وہ ایک برمی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوئے جس سے ان کی شادی ہوئی اور پھر وہ وطن واپس آئے۔

ان کی محبت کی کہانی اور وہ کس طرح اس قصبے میں پہنچے یہ سب چکوال کے ارگرد کے علاقوں میں کافی مقبول ہے جو 2015 میں مظفر کے رشتے داروں، دوستوں اور اس جوڑے نے خود بیان کی۔

فوٹو بذریعہ ڈان نیوز بشکریہ دانیال شاہ

مظفر خان کو اپنے علاقے میں چاچا کالو کے نام سے جانا جاتا تھا تو ان کی 84 سالہ بیوی عائشہ بی بی کو ماشو کہا جاتا تھا۔

چالیس کی دہائی کی یادیں وقت کے ساتھ ساتھ دھندلی پڑتی چلی گئیں اور اس جوڑے کے لیے یہ حقیقت ہی باقی بچی کہ شادی کے بعد ان کی کوئی اولاد نہیں ہوئی جبکہ ماشو نے برما میں اپنا گھر بار شوہر کے ساتھ ہندوستان میں رہنے کے لیے قربان کردیا۔

ماسی ماشو نے اس وقت بتایا تھا کہ جب ہم لوگ یہاں آئے تو میرے ملک میں جنگ جاری تھی۔

چاچا کالو نے کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی برما میں لڑ رہے تھے اور مجھے وہاں ان سے مقابلے کے ایک مشن کے لیے بھیجا گیا۔

ماسی ماشو کے مطابق وہ وسطی برما کے ایک شہر میکیٹلا میں پلی بڑھیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں ایک بدھ لڑکی تھی اور عبادت کے لیے اپنی ماں کے ہمراہ بدھ مندر جاتی رہتی تھی۔

ماشو نے یہاں آنے کے بعد اسلام قبول کرلیا تھا اور انہیں تو اب اپنا وہ نام یاد بھی نہیں جو برما میں ستر سال پہلے ان کا تھا، عائشہ بی بی کا نام بھی مظفر سے شادی کے موقع پر رکھا گیا تھا جس کے بعد ارگرد کے بچوں نے انہیں ماں عاشو کہنا شروع کردیا، جو وقت گزرنے کے ساتھ مختصر ہوکر ماشو کی شکل اختیار کرگیا۔

اپریل 2015 میں جب یہ مضمون شائع ہوا تھا تو اس کے بعد یہ خبر سامنے آئی تھی کہ چاچا کالو کا انتقال ہوگیا اور وہ ماشو کو اپنے رشتے داروں و پڑوسیوں کے ساتھ تنہا چھوڑ گئے۔