بابری مسجد کی جگہ پر فوری رام مندر تعمیر کرنے کا فیصلہ
بابری مسجد کیس کا متنازعہ فیصلہ آچکا ہے اور سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین کو ہندووں کے حوالے کردی ہے جس کے بعد مودی سرکار فوری طور پر بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کیلئے متحرک ہوگئی ہے اور رام مندر کے انیس سو انناسی کے نقشے کیلئے ماہرین سے رابطہ کرلیا گیا ہے ۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق امکان ہے کہ رام مندر کی تعمیر آئندہ سال شروع کی جائیگی اورمندر کا سنگ بنیاد مکرسنکرانتی کے تہوار پر رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔
رام مندر کی تیزی سے تکمیل کیلئے ٹرسٹ بنانے کیلئے اقداما ت کیے جارہے ہیں تاکہ اسکی تکمیل جلد از جلد ہوسکے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ٹرسٹ کی تشکیل کیلئے اسٹیک ہولڈرز سے ملاقات کی جائیگی ۔
بھارتی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بابری مسجد کی جگہ فوری طور پر رام مندر کی تعمیر کا فیصلہ کرلیا۔
ماہرین کے مطابق اترپردیشن میں دوہزار بائیس میں عام انتخابات میں بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر اہم کردار ادا کریگی۔ اور کہا جارہا ہے کہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ بھی اس کو تیزی سے مکمل کرنے کے خواہشمند ہیں ۔
دوسری جانب بھارت میں بابری مسجد کیس پر سپریم کورٹ کے متعصبانہ فیصلے کے بعد بھارتی پولیس نےسوشل میڈیا صارفین کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات پوسٹیں کرنے پر درجنوں کو حراست میں لے لیا ہے۔
حکام کی جانب سے جاری کردہ بیان میں اس حوالے سے تصدیق کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ حکام نے 8270 سوشل پوسٹوں کیخلاف اقدامات کیے ہیں اور پوسٹیں کرنے والے صارف کو فوری طور پر براہ راست پیغام کے ذریعے یہ ہٹائی گئی ہیں یا پھر سوشل پلیٹ فارم پر ان کو رپورٹنگ کے ذریعے ہٹایا گیا ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ
بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کا فیصلہ مسلمانوں کے خلاف سُنا دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ہندوؤں کوایودھیا کی متنازع زمین دی جائے گی جبکہ مسلمانوں کو متبادل جگہ دی جائے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی زمین ہندوؤں کے حوالے کر دی۔
بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رانجن گنگوئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ بابری مسجد کیس کا فیصلہ سنایا، پانچ رکنی بنچ میں مسلمان جج ایس عبدالنذیر بھی شامل ہیں۔
چیف جسٹس رانجن گنگوئی کا کہنا ہے کہ بابری مسجد کیس کا فیصلہ متفقہ ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہندو ایودھیا کو رام کی جنم بھومی جب کہ مسلمان اس جگہ کو بابری مسجد کہتے ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلے میں کہنا ہے کہ عدالت کے لیے مناسب نہیں کہ وہ مذہب پر بات کرے، عبادت گاہوں کے مقام سے متعلق ایکٹ تمام مذہبی کمیونٹیز کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ مسجد کی جگہ پر رام کی جنم بھومی تھی اور بابری مسجد کے نیچے اسلامی تعمیرات نہیں تھیں، بابری مسجد کو خالی پلاٹ پر تعمیر نہیں ہندو اسٹرکچر پر تعمیر کی گئی۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے ستمبر 2010 کے فیصلے کے خلاف دائر 14 اپیلوں پر سماعت کی جس میں سنّی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام لالہ کے درمیان ایودھیا میں 2.77 ایکڑ متنازع زمین کو برابر تقسیم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
پس منظر
مغل بادشاہ ظہیرالدین محمد بابر کے نام سے منسوب بابری مسجد ایودھیا میں سنہ 1528 میں ایک مقامی فوج کے کمانڈر نے بنوائی تھی۔
بہت سے ہندوؤں اور ہندو مذہبی رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ کہ بابر نے یہ مسجد ایودھیا میں ان کے بھگوان رام کے پہلے سے قائم ایک مندر کو توڑ کر اس کی جگہ تعمیر کروائی تھی۔
ان کا ماننا ہے کہ بابری مسجد کے مقام پر ہی بھگوان رام کی پیدائش ہوئی تھی اور اس لیے مسجد کی زمین کی ملکیت مندر کی ہے۔
یہ تنازع انیس ویں صدی میں انگریزوں کے دورِ حکمرانی میں سامنے آیا تھا لیکن پہلی بار یہ کیس سنہ اٹھارہ سو پچیاسی میں فیض آباد کے کمشنر کی عدالت میں پیش ہوا۔
اس وقت کمشنر نے مسجد اور اس کے احاطے پر ہندوؤں کے ملکیت کے دعوے کو مسترد کر دیا تھا۔
آزادی کے بعد دسمبر انیس سو انتالیس کی ایک رات بابری مسجد کے درمیانی گنبد کے نیچے مقام پر بگھوان رام کی مورتی رکھ دی گئی۔
جس کے بعد مزید کشیدگی میں اضافہ ہوگیا اوراس ماحول میں اس مسجد پر تالا لگا دیا گیا اور وہاں نماز پڑھنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ مقامی مسلمانوں نے واقعے کے خلاف پولیس میں رپورٹ درج کرائی اور وہاں سے مورتی ہٹانے کا مطالبہ کیا اور اس کے بعد ہندوؤں نے بھی مسجد کی زمین پر ملکیت کا مقدمہ دائر کیا۔
سنہ انیس سو اسی کے عشرے کے اواخر میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سینیئر رہنما ایل کے ایڈوانی کی قیادت میں آر ایس ایس سے وابستہ وشوا ہندو پریشد کے توسط سے بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کی تحریک شروع ہوئی تھی
چھ دسمبر انیس سو بانوے کو اسی تحریک کے تحت ایودھیا میں جمع ہونے والے ہزاروں ہندوؤں کے ایک ہجوم نے بابری مسجد کو منہدم کر دیا اور اس منہدم مسجد کے منبر کے مقام پر دوبارہ مورتیاں نصب کر دیں گئیں اور وہاں ایک عارضی مندر بنا دیا گیا۔
اس وقت سپریم کورٹ نے اس متنازع مقام کے حوالے سے حکم امتناعی جاری کیا تاکہ حالات مزید کشیدہ ہونے کے بجائے جوں گے توں رہیں۔
Comments are closed on this story.